3 اپریل یکم رمضان المبارک، تاریخی دن، حکومت اور متحدہ اپوزیشن میں سنسنی خیز ون ڈے سیاسی میچ، اپوزیشن کا اسکور 197، حکومت کے 145، آخری گیند، اپوزیشن کو اپنی فتح کا مکمل یقین تھا مگر پی ٹی آئی کے کپتان ایک رات پہلے تک کسی بڑے سرپرائز کی بات کر رہے تھے، بڑے سرپرائز کا ڈرافٹ رات کو ہی تیار کرلیا گیا کپتان نے آخری گیند پر چھکا لگا کر گیند گم کردی اور وکٹیں اٹھا کر بھاگ لیے۔ وکٹوں کے قریب کھڑے امپائر نے مخالف ٹیم کی فتح کا اعلان کرنے کے بجائے نئے میچ کا اعلان کردیا۔ تھرڈ امپائر نے اس انوکھے سرپرائز کا از خود نوٹس لے کر فریقین کو پر امن رہنے کی ہدایت کی۔ اپوزیشن ٹیم نے ساری امیدیں تھرڈ امپائر سے لگالیں تاہم اس انوکھے فیصلہ پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔ 3 اپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں جو کچھ ہوا وہ سب کے لیے حیران کن، ڈپٹی سپیکر کی خلاف آئین رولنگ ملک میں آئینی بحران پیدا کر گئی۔ ایجنڈے کے تحت اس روز اپوزیشن کی وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی۔ اپوزیشن بینچوں پر 172 کی بجائے 197 ارکان موجود تھے حکومت ارکان کو اپنی کم تعداد اور کم مائیگی کے باعث شکست صاف نظر آرہی تھی۔ سادہ سی بات ارکان کی گنتی ہوجاتی یا خفیہ رائے شماری کے بعد فیصلہ کا اعلان کر دیا جاتا مگر انوکھا فیصلہ کیا گیا۔ کئی روز سے کسی ’’دشمن جاں‘‘ کے خط کا ذکر خیر ہو رہا تھا جسے مبینہ طور پر پاکستانی سفیر نے بھیجا تھا، خط کا تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ سے کیا تعلق۔ ایجنڈے میں بھی شامل نہیں تھا مگر ’’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘ ڈپٹی سپیکر نے تحریک اور خط کے درمیان تعلق پیدا کیا۔ کسی بیرونی ملک کے خط کو اپوزیشن سے جوڑا اسے ملک دشمنی قرار دے کر تحریک کو مسترد کردیا اور 3 منٹ میں اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ختم کر کے چلے گئے ۔ گویا ’’آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا‘‘ رولنگ کے فوراً بعد قومی اسمبلی تحلیل کردی گئی، کابینہ ختم، وزیر اعظم عمران خان وزیر اعظم سے نگراں وزیر اعظم بن گئے۔ صدر مملکت نے بلا تاخیر حکم جاری کردیا گویا عمران خان وزیر اعظم نہ ہوتے ہوئے بھی وزیر اعظم رہے، تین ماہ بعد عام انتخابات کس نے دیکھے، ’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘۔ کابینہ تحلیل مگر سکہ بند پانچ پیاروں نے ٹی وی چینلوں پر آکر اپوزیشن کے خلاف شرمناک ریمارکس دیے۔ بلاول بھٹو نے صرف اتنا کہا ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘ شرم و حیا عطیہ خداوندی ہے جس کو بھی پروردگار دے۔ اس سے پہلے ملکی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی سویلین حکمران نے آئین کی اس طرح دھجیاں بکھیری ہوں دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں بھی ایسا کبھی نہیں ہوا تمام ماہرین قانون نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر قانونی قرار دیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ مستقبل میں سیاسی حالات انتہائی خطرناک ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ ملکی سیاست پر اس کے منفی اثرات پڑیں گے۔ کامیابی کس کی ہوئی؟ عمران خان اپنی مدت پوری نہ کرسکے اور ساڑھے تین سال بعد ہی وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ وزیراعظم سے چند دن کے لیے نگراں وزیر اعظم بن
جانا شکست ہی تو ہے وزرا کی نوکریاں تیل ہوگئیں۔ بقول شیخ رشید ان کی سیاست نالہ لئی میں غرق ہوگئی۔ ایک دن کے وزیر قانون نے چمتکار کر دکھایا مگر سب غیر قانونی اور غیر آئینی ،کیا مثال قائم ہوئی؟ مستقبل میں کسی بھی وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے نمبر پورے ہونے کے باوجود بچایا جاسکتا ہے، آئین کی متعلقہ شق کو ذاتی مفادات کے تحت غیر موثر بنا دیا گیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد محمود غیرت مند نکلے، انہوں نے اس غیر آئینی اقدام پر استعفیٰ دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’جو سمجھنی تھی وہی بات نہ سمجھی اس نے، اپنی ہر بات کے مفہوم نکالے کتنے‘‘۔ یہ نہ سوچا کہ اس ایک غیر آئینی اقدام سے ’’ہمارے بعد کئی نسلیں ہوں گی شرمندہ‘‘ وفاق ہی میں سنسنی خیز ڈرامہ نہیں رچایا گیا پنجاب میں بھی یہی ایکٹ دہرایا گیا بقول گورنر چودھری سرور (جنہیں ووٹنگ کے دن ہی برطرف کردیا گیا) 3 اپریل کی رات اہم شخصیت نے مجھ سے رابطہ کیا ،کہا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیں وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ جہانگیر ترین اور علیم خان گروپوں کی حمایت کی وجہ سے ن لیگ کے وزارت اعلیٰ کے امیدوار حمزہ شہباز کے حامی ارکان کی تعداد 200 تک پہنچ گئی ہے پرویز الٰہی ہار رہے ہیں میں نے غیر آئینی اقدام کرنے سے انکار کردیا جس پر مجھے برطرف کردیا گیا۔ انہوں نے ساڑھے تین سال کے دوران پنجاب میں کرپشن ،رشوت ستانی اور ملازمتیں بیچنے کے الزامات بھی عائد کیے کہا کہ ہم نے دل پر پتھر رکھ کر بزدار کو برداشت کیا۔ ’’میرے مزاج کے موسم میرے خلاف ر ہے، نہ کرنا چاہا جو میں نے وہ بار بار کیا‘‘ وزیر اعظم بار بار کہتے رہے بلیک میل نہیں ہوں گا۔ مگر 9 سیٹوں کے لیے بلیک میل ہوگئے، پی ٹی آئی کے 185 ارکان میں سے انہیں ایک بھی اکرم پلس نہیں ملا ‘‘گورنر کی برطرفی کے بعد پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ نہ ہوسکی اور اجلاس 7 اپریل تک ملتوی کردیا گیا۔ وفاق اور پنجاب میں جو ہوا برا ہوا۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی تو حالات مختلف ہوتے اب ان مختلف حالات کے لیے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا۔ تاہم اس تمام کہانی کا روشن پہلو یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان گئے مگر واللہ جس مشکل سے گئے ہیں اس کا مشاہدہ پوری قوم نے کیا۔ یوں کہہ لیجئے کہ نہایت آسانی سے آئے تھے انتہائی مشکل سے گئے، اگر چہ انہیں اور شیخ صاحب کو مکمل یقین ہے کہ عام انتخابات کے بعد وہ دو تہائی اکثریت سے پھر عنان حکومت سنبھالیں گے مگر سب کچھ قبل از وقت ہے۔ ریتیں بدلتی رہتی ہیں زمانہ کس طرف کروٹ لیتا ہے کچھ پتا نہیں، عوام اپنا برا بھلا سمجھتے ہیں، کسے معلوم آئندہ الیکشن میں وہ کسے یاد رکھیں کسے بھول جائیں۔ مہنگائی سے تنگ کتنے فیصد عوام پھر اسی آگ میں جلنے کو تیار ہوں گے اس کا فیصلہ وقت کرے گا ’’وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔‘‘ المیہ یہ ہے کہ کرسی آنے والے سے چمٹ جاتی ہے یا آنے والا کرسی سے چپک جاتا ہے جانے کا نام نہیں لیتا۔ وزیر اعظم کو آتے ہی مشورہ دیا گیا تھا کہ ’’رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے قومی اسمبلی بنائی‘‘ اس قومی اسمبلی نے آپ کو اعتماد کا ووٹ دیا ہے ارکان سے بنا کر رکھیں مگر ایسا نہ ہو سکا اپوزیشن کے 165 ارکان کو پہلے ہی دن سے چور ڈاکو بنا کر مشاورت کجا دیکھنے سے انکار کردیا گیا جبکہ اپنوں سے بے اعتنائی برتی گئی تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرنے والے پی ٹی آئی کے پچیس تیس ارکان کو یہی شکایت رہی کہ ہمیں کچھ نہیں ملا۔ عوام کو کیا منہ دکھائیں گے بقول آپ کے اللہ نے حکم دیا نبی رحمت ﷺ کے راستے پر چلو آپ جانے کس انٹرچینج کی طرف نکل گئے جو سائیڈ روڈ اپنائی وہ کم از کم مدینہ کی طرف نہیں جاتی تھی، جو راستہ اپنایا گیا وہ تباہی کی طرف لے گیا سیاسی تباہی، معاشی بربادی، اخلاقی انحطاط، مہنگائی کا سونامی، بیروزگاری، ساڑھے تین سال میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ صرف تقریریں، لمبے لمبے بھاشن، روزانہ تین سے چار پریس کانفرنسیں، چار پانچ ٹوئٹس اور 17 ترجمانوں اور وزرائے مملکت کی بے لگام جگتیں اور ریمارکس، بازاری گالیاں، فی البدیہہ برے القابات، اخلاق و مروت کا جنازہ نکال دیا گیا۔ ’’آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں۔‘‘تحریک عدم اعتماد تو آنی تھی تحریک میں کیا بات غیر آئینی غیر قانونی اور جمہوریت کے منافی تھی کہ آپ آلو ٹماٹر کی قیمتیں بھول کر جمہوریت کی وکٹیں اکھاڑنے میں لگ گئے، جمہوریت اور ملک کے ساتھ بہت برا ہوا ہے۔ جمہوریت سر برہنہ چہرہ ڈھانپے رو رہی ہے۔ امید کی آخری کرن سپریم کورٹ حکومت ٹرمپ کارڈ پر کیا فیصلہ دے گی عدالت عظمیٰ کی طرف سے بھی کسی ’’بڑے سرپرائز‘‘ کا انتظار ہے۔