پاکستان میں اب شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جس میں خواتین کام نہ کر رہی ہوں۔پرانے وقتوں میں خواتین کو اپنی صلاحتیں دکھانے کے مواقع بہت کم دیے جاتےتھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں صرتحال بہتر ہو رہی ہے اور اب ہر شعبے میں خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ بلکہ ان سے آگے نظرآتی ہیں۔مگر اس دورجدید میں بھی خواتین بہت سی پورانی مشکلات کا سامنا کر ناپڑرہا ہے۔بے شمار ایسی جنگیں ہیں جو گھر سے کام کے لیئے نکلنے والی خواتین کو اکیلے لڑنی پڑتی ہیں۔
نوکری کرنے کے لیے خواتین کو پہلی جنگ کی شروعات اپنے گھر سے کرنے پڑتی ہے۔ اس دور میں بہت سے خاندانوں میں خواتین کے نوکری کرنے کا رواج نہیں ہے۔ پہلے تو ایسے گھر میں نوکری کی اجازت لینا ہی مشکل،گھر والوں کے مختلف سوالات‘‘،تمہیں نوکری کی کیا ضرورت ہے ہم ہیں نوکری کے لیے؟، خواتین نوکری کرتی اچھی نہیں لگتی،وغیرہ اور اگر اجازت مل بھی جائے تو پھر بھی اس بات کا خیال رکھنا پڑتا کے کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آئے جس کی بنہ پر نوکری چھوڑنے پر زور دیا جائے۔اور ہمیشہ اس بات کا تصور کرنا کے خواتین اگرنوکری کرنا چاہ رہی ہیں تو اس کی وجہ یقیناََ آمدنی ہی ہوگی جبکہ مسئلہ ہمیشہ دولت نہیں ہوتا، نوکری کرنے کی وجہ ذاتی تجربہ،خوداعتمادی،شعور،سوچ کی وسعت،بہتر فیصلہ کرنے کی قوت کے لیئے بھی کرنی پڑتی ھے۔
دوسرا مسئلہ خواتین کو کمروز سمجھنے کا ہے بہت سی جگہوں پرمرد حضرات کو خواتین پر اس سوچ سے ترجیح دی جاتی ہے کہ مرد حضرات خواتین سے بہتر کام کرتے ہیں اور ان کے پاس زیادہ تجربہ ہوتا ہے۔ اور اگر قسمت سے کسی خاتون کوئی بڑا عہدہ مل بھی جائے تو انہیں آمدنی اور عزت مرد حضرات سے کم ملتی ہیں۔ اور محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے۔اس کے علاوہ بھی خواتین کو آسان سمجھ کر آسان کم دیئے جاتے ہیں۔ جیسےکہ میڈیا میں خواتین کو ہمشہ انٹرٹینمینٹ،موسم اور دیگر چھوٹی خبریں دی جاتی ہیں اور بڑی خبروں سے دور رکھا جاتا ھے۔ حالانکہ اگرخواتین کو موقعہ دیا جائے تو وہ بہت بہتری سے دوسرے کام سرانجام دے سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستانی معاشرے میں زیادہ تر خواتین کو ہر کام کے لیے گھر سے اجازت لینی پڑتی ھے اگر کہیں ملازمت کرنی ھے تو اجازت، شھر سے باہر کام سے جانا ھے تو اجازت،اگر کام میں دیر ہورہی تو اجازت اور اگر اجازت نا ملے تو گھر بیٹھ جاؤ۔ اور مردوں کو یہی سب کام کرنے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔اکثر خواتین باصلاحیت ہونے کے باوجود بھرپورموقعوں سے مستفید نہیں ہو پاتیں کیونکہ انہیں ہر کام کے لیے گھر والوں سے اجازت لینی پڑتی ہے۔
اس بعد ایک اور مسئلہ شادی کے بعد خواتین کی نوکری کا ہے۔اگر کوئی لڑکی شادی اور بچوں کے بعد بھی نوکری کرتی ہے تو اسے لاپروہ اور غیرزمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ اور اس پر طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی ہیں۔ چاہے جتنی بھی تھکن ہو گھر آ کر گھر کے کام بھی خوش اسلوبی سے کرنے ہیں تاکہ ہمارا معاشرہ باتیں نہ بنا ئے کے اس کو تو بس نوکری کرنا آتی ھے۔مطلب یہ کہ مرد حضرات کے لیے نوکری کرنا آسان ہو مگر خواتین کے لیے یہ ‘‘پیس آف کیک’’ نہیں۔
اے عورت! تم بے مثل ہو تمہیں پہنچے میرا سلام
میری روح تمہاری سلطنت میرا دل ہے تیرا غلام
تحریر : دعا عدیل
(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)