پنجاب میں آئی جی کے عہدے پر فائز رہنے والے ایک بہت اپ رائٹ،نیک نام اور محنتی پولیس افسر بتا رہے تھے کہ ستر کی دہائی کے دوسرے حصے میں وہ پولیس میں اے ایس پی کی حیثیت سے بھرتی ہوئے تو انہیں لاہور کی لٹن روڈ پولیس چوکی جو اب تھانہ لٹن روڈ سے اطلاع آئی کہ وہ اپنے کوائف کی جانچ پڑتال بارے حاضر ہوں،انہوں نے اپنی سائیکل نکالی اور چوکی میں پہنچ گئے جہاں چوکی محرر نے انہیں بٹھا کر ان کے ماضی کاایکسرے کیا، سوال پوچھے،فارمز پر کچھ لکھا،دستخط کرائے اور جانے کی اجازت دے دی مگر اپنے لئے چائے پانی کا ہاتھ بھی دراز کر دیا۔جلد ٹریننگ،اے ایس پی کی وردی پہننے،لوگوں کی حفاظت، مدد اور انہیں ظلم سے نجات دلانے کا خواب سجائے اس نوجوان کے لئے یہ سوال اپنے آنے والے محکمے کی کارکردگی جانچنے کا شاید یہ پہلا عملی تجربہ تھا،اس نے محرر سے کہا آپ کو پتہ ہے میں نے آپ کے محکمے کا افسر بننا ہے اور آپ مجھ سے چائے پانی اور مٹھائی مانگ رہے ہیں تو محرر صاحب نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا،ریٹائرڈ پولیس افسر نے جب یہ وقعہ سنایا تو وہاں موجود چند اور بڑے افسران کا مؤقف تھا کہ تھانہ کلچر کے حالات اب بھی ویسے ہیں جو ستر کی دہائی میں تھے۔ایک اور واقعہ سنیے جو میرے ساتھ پیش آیاکوئی پندرہ بیس سال قبل میں نے نئی گاڑی خریدی اور اس کی رجسٹریشن اور نمبر اپلائی کر دیا،کار پر اپلائڈ فار کی پلیٹ لگی تھی مجھے شام کے وقت ایک پولیس ناکے پہ دو پولیس اہلکاروں نے روکا اور گاڑی کی تصدیق کے لئے اس کے کاغذات مانگے،میں نے کہا یہ اپلائڈ فار ہے اور جمع کرائے گئے کاغذات بارے محکمہ ایکسائز کی رسید اور اپنا ڈرائیونگ لائسنس دکھا دیا،وہ یہ سب دیکھ کر بولے اچھا یہ نئی گاڑی لی ہے تو پھر ہماری مٹھائی تو دیں،میں نے کہا میں آپ کے ایس پی صاحب سے کہتا ہوں وہ آپ کو کھلا دیں گے اس پر انہوں نے معافیاں مانگنا شروع کر دیں۔
سال بدلے،حکومتیں بدلیں،کبھی فوجی، کبھی نیم فوجی،کبھی جمہوری اور کبھی عبوری حکمران آئے، پولیس کو بدلنے کی کوششیں ہوئیں،پولیس کے اعلیٰ افسر بدلے،پی ایس پی کلاس بدلی،ان کے دفتر بدلے،وردیاں بدلیں،تنخوائیں بدلیں مگر تھانہ کلچر،رویہ اور وہاں کے حالات نہ بدلے، کہتے ہیں پولیس شہریوں کی جان مال آبرو کی ضامن اور محافظ ہے،مگر ان محافظین کے حالیہ سیلاب اور بارشوں میں کردار پر ایک نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے پولیس غریب عوام کی دشمن اور ان کے جان مال آبرو کے لٹنے سے بے پروا،کوئی ایک تھانہ بتا دیں جو سیلاب زدہ عوام کو پناہ دینے کیلئے کھلا ہو،کسی ایک تھانیدار کی نشاندہی کر دیں جس نے اپنی فورس کو شہریوں کو عذاب آب سے بچانے کی کوشش کی ہو،سیلاب آنے سے قبل لوگوں کو کسی دوسرے مقام پرمنتقل کیا ہو،کسی بھوکے کو کھانا کھلایا ہو،تھانے کو پناہ گاہ بنایا ہو،ہاں اس دوران پولیس افسر اپنے جونئیرز اور عام لوگوں کے کندھوں پر سوار ہو کر تھانوں میں آتے ضرور نظر آئے کہ ان کے بوٹ گیلے نہ ہو جائیں،وردی میلی نہ ہو جائے،یہی تھانے والے وزیر اعظم کی آمد پر امداد نہ ملنے پر احتجاج کرنے والوں کیخلاف دہشت گردی کے مقدمات قائم کرتے ضرور نظر آئے،یہ کس کے کہنے پر کیا گیا؟کیا وزیر اعظم نے ایسی کسی خواہش کا اظہار کیا تھا؟مئی میں تحریک انصاف کے کارکنوں پر وحشیانہ تشدد کا کیا جواز تھا؟کس کے کہنے پر کیا گیا؟ماڈل ٹاؤن میں منہاج القراٰن کے کارکنوں،خواتین،بچوں کیساتھ جو بہیمانہ سلوک کیا گیا اور قتل عام کیا گیا اس کا حکم کس نے دیا اور کون سا قانون ہے جو کسی صاحب اقتدار کے غیر قانونی احکامات کی بجاآوری پر مجبور کرتا ہے؟
کسی دور میں سلوگن دیا گیا”پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی“ جس کے جواب میں عوامی سلوگن آیا”پولیس کا ہے ڈنڈا کمر آپ کی“اور یہ کچھ بے معنی نہ تھا،اگر یہ ڈنڈا مجرموں کی کمر پر برستا تو آج جرائم کی شرح انتہائی کم ہوتی،مگر یہ ڈنڈا ہمیشہ غریب کی کمر پر سرخ دھاریوں سے نقشے بناتا رہا،نتیجے میں مجرم منہ زور ہو گئے،ان کو معلوم ہو گیا جو مرضی کرو،کسی کی زمین مکان دکان پر قبضہ کر لو،جس کی دل کرے جان مال آبرو سے کھیل لو تھانہ میں پیسہ لگا کے با عزت قرار پا جاؤ گے تو جرم دھڑلے سے ہونے لگے،ہماری پولیس کے جوان تو ایسے ہیں کہ کوئی سڑک پر حادثے کا شکار ہو کر مر رہا ہو تو یہ اس کی مدد کرنے کے بجائے تھانے کی حدود جانچنا شروع کر دیتے ہیں،ان کے سامنے کوئی با اثر کسی مظلوم کو روئی کی طرح دھن رہا ہو تو یہ دور کھڑے تماشا دیکھتے رہتے ہیں،مجرم پکڑنا تو دور کی بات مجرم قانون کی گرفت میں آبھی جائے تو یہ گواہی نہیں دیتے۔
اس پولیس فورس سے اگر کوئی یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ جرم کو ختم کر دیں گے مجرموں کو نکیل ڈالیں گے تو یہ بہت بڑی حماقت ہو گی،جس فورس کے بہت سے افسر علاقہ کے بڑے مجرموں کے مخبر ہوں اور مظلوم کے کہنے پر ایف آئی آر کاٹنے کے بجائے مجرم کی ہدائت پر ایف آئی آر مرتب کریں وہ فورس جرائم کا قلع قمع نہیں کر سکتی بلکہ جرائم کے فروغ اور مجرموں کو پناہ دینے کا سبب بنے گی،اس فورس کو راہ راست پر لانے کیلئے کئی بار اصلاحات متعارف کرائی گئیں مگر محکمہ نہ سدھرا اور اصلاحات فائلوں میں ہی دفن ہو گئیں، پولیس کمپلینٹ سیل اور سٹیزن لائزن کمیٹیاں بن سکیں نہ پولیس اور عوام میں دوریاں اور فاصلے کم کرنے کی کوشش کی گئی،کسی شہری کو اگر شکائت ہے تو وہ شکایت سیل میں درخواست دے اور سیل اس کی بات سن کر ذمہ دار پولیس اہلکار کے خلاف ایکشن لے تو بہت سے مسائل فوری حل ہو سکتے ہیں،ہمارے ہاں پولیس خوف کی علامت ہے تحفظ کی نہیں۔ عادی گداگروں کو گرفتار کرنا محکمہ پولیس کی ذمے داری ہے، منشیات کی خرید و فروخت پولیس کی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں،گرام کے حساب سے منشیات خریدنے والا پکڑ میں آجاتا ہے مگر کلو گرام کے حساب سے خریدنے اور فروخت کرنے والا معزز ہے، سارا تھانہ جانتا ہے منشیات کون بیچتا ہے کہاں سودے ہوتے ہیں سپلائی کیسے دی جاتی ہے،دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہمارے ملک کا پولیس ڈیپارٹمنٹ اپنے فرائض منصبی دیانتداری سے ادا کرے تو ملک سے 80فیصد جرائم از خود ختم ہو جائیں،لیکن جس معاشرے میں جو جتنا بڑا مجرم ہو اتنا ہی معزز اور اکرام کا مستحق ہووہاں جرائم کا قلع قمع دیوانے کے خواب سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا،اس محکمہ کو اگر چہ خراب کرنے میں ہر دور کے حکمرانوں کا بڑا کردار ہے جو اپنے اقتدار کے استحکام کیلئے پولیس کا استعمال کرتے ہیں،پھر وقت آنے پر ان کے سفارشی بن کر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ پولیس تو بے چاری ہے۔واقعی پولیس بے چاری ہے؟