جب سے عمران خان کی حکومت گئی ہے، قانون و انصاف سے دلچسپی رکھنے والے پاکستانی بڑی توجہ سے صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ایوان عدل کے افق سے کس نوع کا سورج طلوع ہوتا ہے؟ درخشاں و تاباں یا گہنایا ہوا؟ اُدھر خان صاحب کے سیاسی مخالفین کا خیال ہے کہ کردہ گناہوں کی بنا پر خان صاحب کے ساتھ کم ازکم وہ سلوک تو ضرور ہو گا جو نا کردہ گناہوں پر نواز شریف کے ساتھ روا رکھا گیا۔ ان کا خیال ہے کہ میاں صاحب پر تو کسی کرپشن کا کوئی مقدمہ بن ہی نہ سکا، انہیں تو اقامہ، وسائل اور اثاثوں کے بے سرو پا الزامات میں ٹھکانے لگا دیا گیا۔ عمران خان کے گرد توشہ خانہ، فارن فنڈنگ کے اربوں روپوں کی گمشدگی، ہیروں جڑی انگوٹھیوں، بیش قیمت جواہرات، القادر یونیورسٹی سے جڑی زر اور زمین کی داستانوں، مہر بند لفافے میں پڑے پُراسرار کاغذ کی کابینہ سے منظوری اور بلین ٹری سونامی جیسے شیش ناگ پھنکار رہے ہیں۔ کھدائی جاری ہے جانے اور کیسے کیسے ”نوادرات“ برآمد ہوں۔ انہیں پاناما جیسے کسی تخیلاتی نہیں، حقیقی مقدمات کا سامنا ہو گا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ خان صاحب کو بھی بھی سیکڑوں پیشیاں بھگتنا ہوں گی۔ انہیں بھی اڈیالہ، کوٹ لکھپت اور لانڈھی کی ہوا کھانا پڑے گی، ان کے لیے بھی سپریم کورٹ ریفرنسز دائر کرنے کا نادر روزگار حکم دے گی۔ اُن کے لیے بھی احتساب عدالتوں کو تین ماہ میں فیصلہ دینے کا فرمان جاری ہو گا، ان عدالتوں پر بھی سپریم کورٹ کا ایسا جج بطور مانیٹر بٹھایا جائے گا جو خان صاحب کے خلاف پہلے ہی فیصلہ دے چکا ہو۔ ان کے حق میں بھی کوئی آڈیو وڈیو کیسٹ نکلی تو انہیں ناقابل قبول شہادت قرار دے دیا جائے گا۔ ان کیلئے بھی کڑی شرائط لگا کر ضمانت کے حق کو ناممکن بنا دیا جائے گا۔ کم از کم یہ کہ جس ترازو میں نواز شریف کو بے جا طور پر تولا گیا، وہی ترازو بجا طور پر خان صاحب کیلئے بھی استعمال کیا جائے گا۔ خواب خرامی کرنے والے ان خوش گمانوں کا کہنا ہے کہ اور کچھ ہو نہ ہو، متحدہ عرب امارات سے ایک ایسی کمپنی کا سراغ ضرور لگا لیا جائے گا جس کے ساتھ خان صاحب نے کسی کرکٹ میچ میں ماہرانہ تبصرے کیلئے دس ہزار درہم کا معاہدہ کیا ہو گا۔ انہوں نے ازراہ مروت یہ رقم وصول نہیں کی ہو گی (مگر یہ امکان ہی کہاں ہے)۔ معزز عدالت اسے خان صاحب کا قابل وصول اثاثہ قرار دے کر، اُسے وصول نہ کرنے کے جرم میں عمر بھر کیلئے نا اہل قرار دے ڈالے گی۔
کج فہم لوگوں کی خوش فہمیوں پر جب ذرا سی اوس پڑتی ہے تو وہ واہی تباہی پر اتر آتے اور عدلیہ کو کوسنے لگتے ہیں۔ ان دنوں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اس افسوس ناک طرز عمل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو اپنے نظام عدل کی انصاف پروری اور دیدہ وری کا
پورا ادراک نہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رائج انصاف کچھ اپنی امتیازی خصوصیات رکھتا ہے۔ اسے نام نہاد عالمی معیار کے پیمانے پر نہیں جانچنا چاہیے۔ مثال کے طور پر دنیا آج بھی اس کلیے یا اصول سے بندھی ہے کہ انصاف ”اندھا“ ہوتا ہے۔ گویا جب کوئی جج انصاف کی مسند پر بیٹھتا ہے تو عملاً نہ سہی ایک تخیلاتی سی سیاہ پٹی اپنی آنکھوں پر باندھ لیتا ہے۔ وہ اپنے سامنے کھڑے فریقین مقدمہ کو نہیں دیکھتا۔ صرف اپنے حلف پر نگاہ رکھتا ہے، جس کے الفاظ اُس کے دل و دماغ میں جگنوؤں کی طرح درخشاں رہتے ہیں اور گُھپ اندھیروں میں بھی انصاف کا راستہ تلاش کر لیتا ہے۔ اُسے کسی کے قد کاٹھ سے کچھ غرض ہوتی ہے نہ ٹھاٹھ باٹھ سے، ہمارا انصاف اس طرح کے اندھے پن کا شکار نہیں۔ ماہرین چشم کی زبان میں یہ 6x6 کی بینائی رکھتا ہے۔ دیدہ بینا رکھنے والا ہمارا نظام انصاف آنکھ بھر کر مدعی اور مدعا الیہ کو دیکھتا، ان کے درجہ و مقام کو جانچتا اور پھر اپنی تیز بصارت کو عادلانہ بصیرت میں ڈھال کر فیصلہ سنا دیتا ہے۔
ہمارے عدل کی بصارت اور بصیرت کا ایک پیش بہا نمونہ، ریاست بنام عمران خان کیس 2014 میں دکھائی دیتا ہے۔ 2013 کے انتخابات میں ناکامی کے بعد عمران خان نے ریٹرنگ آفیسرز کے طور پر فرائض سرانجام دینے والے سیشن جج صاحبان کے کردار کو ”شرمناک“ قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لیا۔ توہین عدالت کا مقدمہ شروع ہوا۔ خان صاحب نے کہا ”جیل چلا جاؤں گا، معافی نہیں مانگوں گا“۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کے دور میں شروع ہونے والا مقدمہ جسٹس انور ظہیر جمالی کے عہد تک پہنچا۔ جسٹس جمالی، جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس اعجاز احمد چودھری پر مشتمل بینچ نے سماعت کی۔ حامد خان تب بھی عمران خان کے وکیل تھے۔ انہوں نے ڈٹ کر مقدمہ لڑا۔ معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ اس کے باوجود خان صاحب کو بری کر دیا گیا۔ دیدہ ور اور انصاف پرور جج صاحبان نے 9 اکتوبر 2014 کو اپنے تاریخ ساز فیصلے کے پیرا گراف 14 میں لکھا۔
”ہم نے عدالت میں عمران خان کے طرز عمل کا بغور مشاہدہ کیا ہے، تمام تر سماعت کے دوران عمران خان کی بدن بولی (Body Language) سے اظہار ہو رہا تھا کہ وہ عدلیہ کو بیحد عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے چہرے پر پشیمانی کے واضح اثار تھے۔“
ان شواہد کی بنیاد پر عدالت نے ملزم کو بری کر دیا اور لکھا کہ اس کی طرف سے غیر مشروط معافی کی کوئی ضرورت نہیں۔
آپ ہی سوچئے کہ اگر نام نہاد عالمی اصولوں کے مطابق عدالت اندھی ہوتی تو اُسے خان صاحب کی بدن بولی اور ان کے چہرے پر سایہ فگن پشیمانی کے آثار کیسے دکھائی دیتے؟ اس صورت میں وہ صرف مقدمے کے حقائق اور میرٹ پر فیصلہ دینے پر مجبور ہو جاتی۔ لیکن اس کے ”دیدہ بینا“ نے وکلا کے دلائل، مقدمات کے حوالوں، طویل بحث اور خان صاحب کے ”شرمناک“ کے لفظ کو بھاڑ میں جھونکا۔ صرف بدن بولی اور چہرے کے تاثرات کو فیصلے کی بنیاد بنا دیا۔ یہ ہمارے نظام کی 6×6 بینائی ہی کا فیضان ہے کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔ عدالت نے لوحِ انصاف پر یہ تاریخی قول بھی ثبت کر دیا کہ توہین عدالت کے حوالے سے ملزم کی ”زبان بولی“ پر نہ جاؤ، اسکی ”بدن بولی“ دیکھو۔
مجھے یقین ہے کہ خان صاحب کے مخالفین کی توقعات پر اسی طرح اوس پڑتی رہے گی۔ اپنی تاریخ اور نظام عدل کی دیدہ وری سے نا آشنا اور شعری تقاضوں سے نابلد یہ لوگ صرف ”توہین عدالت“ کا الزام سن کر، عمران کا قافیہ، دانیال، طلال اور نہال سے ملا دیتے ہیں۔ اس خوش گمانی میں ہیں کہ عمران خان کو نواز شریف بنا دیا جائیگا۔ اتنی سی بات نہیں سمجھتے کہ ”بدن بولی“ پڑھ لینے اور ”چہرے کے آثار“ سے معنی کشید کرنے والا نظامِ عدل اندھیرے میں تیر نہیں چلاتا۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ایک ہی قانون کے ہوتے ہوئے، کس کے ساتھ کیا سلوک روا رکھنا ہے۔ اگر انصاف اندھا ہو تو وہ کیسے جانے کہ ایک ہی ترازو ہوتے ہوئے اسے کس کے لیے کون سا باٹ استعمال کرنا ہے؟