عالمی مالیاتی ادارے کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ایف) کی بحالی کو معاشی بحران کی اس صورتحال میں ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے اپریل کے آخر میں انتہائی کمزور معاشی پوزیشن کے ساتھ قرض پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات شروع کیے تھے اور اس کیلئے ہر طرح کی سخت شرائط کو قبول کیا گیا۔ بجٹ تجاویز میں ٹیکسوں کی بلند ترین شرح اور توانائی کے نرخوں میں غیر معمولی اضافے قبول کیے گئے جس سے شہریوں کے مالی بوجھ میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ان شرائط پر عمل درآمد کے باوجود آئی ایم ایف کے قرض کی بحالی کے امکانات مبہم ہی رہے یہاں تک کہ جولائی کے آخر میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس سلسلے میں امریکی نائب وزیر خارجہ سے ٹیلی فون پر بات کی۔ یوں اپریل کے آخر میں شروع ہونے والی قرض معاہدے کی بحالی کی کوششیں قریب چار ماہ بعد کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں۔ اس معاہدے کی اہمیت یوں بھی ہے کہ یہ ایسے حالات میں کیا گیا جب ملکی معیشت شدید ترین دشواریوں سے دوچار تھی۔ حکومت کا موقف تو یہ ہے کہ اس معاہدے کے ذریعے اس نے ملک کو سری لنکا جیسے حالات کا شکار ہونے سے بچایا ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے معیشت کے دیوالیہ پن کے خدشات کا چھٹ جانا بلا شبہ ایک قابلِ ذکر پیش رفت ہے مگر قرض کی رقم سے آخر کہاں تک؟ اگر بیرونی قرضے پہلے سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کا واحد ذریعہ ہیں تو معیشت کیلئے یہ ہرگز اچھی خبر نہیں۔ یہ مختصر مدتی سہولت تو ہو سکتی ہے مگر اس سے لاحق خطرات کا مستقل ازالہ ممکن نظر نہیں آتا۔ قومی معیشت کا پائیدار استحکام پیداواری صلاحیت میں اضافے سے ممکن ہے مگر سرِدست ہماری پیداواری کارکردگی گنجائش سے نمایاں حد تک کم ہے۔ ملکی برآمدات ہی کو دیکھ لیں گزشتہ دس برس کے دوران برآمدات میں بمشکل ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ 2010-11 میں برآمدات 24 ارب 81 کروڑ ڈالر تھیں اور 2020-21 میں 25 ارب 30 کروڑ ڈالر۔ اس دوران اگرچہ کئی سال ایسے بھی آئے جب برآمدات 21 ارب ڈالر تک رہیں؛ تاہم درآمدات میں اس دوران قریب 16 ارب ڈالر کا اضافہ ہو گیا۔ ہم زرعی معیشت کا دعویٰ کرتے ہیں مگر بیشتر زرعی اجناس بھی درآمد کیے بغیر چارہ نہیں۔ اس پیداواری کارکردگی کے ساتھ ملکی معیشت کو پائیدار استحکام کی منزل تک لے جانا ممکن نہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ پیداوار میں اضافہ کیا جائے تا کہ زرمبادلہ ملک سے باہر جانے کے بجائے باہر سے آئے صنعتیں اور کاروبار ترقی کریں اور لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں۔ قرضوں کے ساتھ خواہ ان کی شرائط کتنی ہی نرم کیوں نہ ہوں کسی معیشت کو مستحکم کرنا ناممکن ہے۔ قرض وقتی سہارا ضرور ہو سکتے ہیں مگر پائیدار استحکام ہرگز نہیں؛ چنانچہ حکومت کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تا کہ ملک سے دیوالیہ پن کے جن خطرات کے ٹل جانے کی امید کی جا رہی ہے وہ مستقل طور پر ٹلے رہیں۔ اس کیلئے حکومت کو غیر پیداواری اخراجات میں خاطر خواہ کمی کرنا ہو گی۔ ہمارے ہاں بے مقصد کاموں میں سرمایہ خرچ کرنے کی بری روایت نے ملکی معیشت کو بے پناہ مالی نقصان پہنچایا ہے۔ کفایت شعاری کا چلن ہمارے ہاں ہے ہی نہیں۔ اس رویے پر سنجیدگی اور ذمہ داری سے نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت اپنے غیر ضروری اخراجات کم کرے تو متعدد مدات میں اربوں روپے کی بچت ممکن ہے۔ ان حالات میں جب ہمارے ملکی اور غیر ملکی قرض انتہائی حدوں کو چھو رہے ہیں ایسا کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ سرکاری اخراجات میں کفایت شعاری اختیار کرتے ہوئے حکومت کو سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے زیادہ وسائل مختص کرنے چاہئیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ قرض بحالی کیلئے حکومت نے جو شرائط قبول کی ہیں ان سے عوام پر خاصا مالی بوجھ پڑا ہے؛ تاہم حالیہ سیلابوں کے بعد ضروری ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے بعض شرائط میں رعایت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ صوبوں کی جانب سے پہلے ہی اس حوالے سے مطالبات سامنے آ چکے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ سیلاب سے متاثرہ صوبوں کیلئے حالات میں فیصلہ کن تبدیلی آئی ہے اور بڑے پیمانے کی اس تباہی کے باوجود صوبوں کیلئے سرپلس بجٹ کی شرط پوری کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو گا۔ قرض کی شرائط میں نرمی عالمی طریقہ کار سے متصادم نہیں اس سلسلے میں ہمارے پاس کورونا وبا کی نظیر موجود ہے کہ متاثرہ ممالک کو قرض کی واپسی میں کئی رعایتیں دی گئیں؛ چنانچہ درپیش حالات کی بنا پر عالمی مالیاتی فنڈ سے شرائط میں رعایت کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی جو ٹیلی فونک گفتگو لیک ہوئی ہے جس میں بظاہر وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے خزانہ کو کچھ ہدایات دے رہے ہیں یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ٹیکنو کریٹس جو متعلقہ معاملات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں وہ بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے چکر میں اصولوں سے پہلو تہی کر گزرتے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں نے جس تناؤ کو اپنی سیاست کیلئے ایک خوبی سمجھ لیا ہے دراصل سیاسی رواداری سے عدم مطابقت کا نتیجہ ہے۔ انتہائی نوعیت کے قومی المیے کی اس صورتحال میں بھی قومی مقاصد کی خاطر سیاسی ہم آہنگی کیوں نظر نہیں آتی؟ گزشتہ دو برس کے دوران کووڈ 19 کی مہلک وبا اور اس سال فروری سے جاری روس یوکرین جنگ نے عالمی معیشت کو بُری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے سری لنکا سمیت بعض ممالک دیوالیہ ہو گئے یا ہونے کے قریب ہیں جبکہ متعدد معاشی پہیہ رواں دواں رکھنے کے لیے سخت گیر فیصلے کرنے پر مجبور ہیں جس سے مہنگائی کے کئی سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے اور کروڑوں افراد بیروزگار ہو چکے ہیں۔ معدنی تیل کی قیمتوں میں شدید اتار چڑھاؤ کا سب سے زیادہ اثر پاکستان جیسی کمزور معیشتوں پر پڑا ہے جن کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکی مرکزی بنک نے آنے والے دنوں میں ایک مرتبہ پھر اپنی شرح سود بڑھانے کا عندیہ دیا ہے جس پر ردعمل دیتے ہوئے چینی معاشی مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ اس امریکی اقدام سے ترقی پذیر ممالک کی معاشی صورتحال مزید بگڑ جائے گی تاہم امریکی مالیاتی حکام کا نظریہ ہے کہ شرح سود میں اضافے کا رجحان اس وقت تک برقرار رہنا چاہئے جب تک کساد بازاری پر مکمل قابو نہیں پا لیا جاتا۔ یاد دلا دوں کہ گزشتہ تین چار ماہ کے دوران امریکی مالیاتی پالیسیوں میں بار بار رد و بدل کے باعث خود اس کے ہاں مہنگائی اور بیروزگاری کی حالیہ سطح گزشتہ 60 سال کی ہر حد عبور کر چکی ہے۔ امریکی مرکزی بنک کے اس اعلامیہ سے قبل عالمی ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ اس ممکنہ اقدام کی صورت میں بہت سے ملکوں سے ڈالر نکل کر امریکی بنکوں میں چلے جائیں گے جس سے ان کی معیشتیں تباہ ہو کر رہ جائیں گی۔ یہ ایک نازک معاملہ ہے، امیر ممالک کی مالیاتی تنظیموں اور اداروں کو آگے آنا اور اصل مسائل کی طرف رجوع کرنا چاہئے جن کا حل ہی دنیا کو کساد بازاری سے بچا سکتا ہے۔