ملک میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ لیکن جو کچھ ہو رہا ہے۔ عدالتوں کے ذریعے ہو رہا ہے۔ سب کی نظریں سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ اور دیگر عدالتوں کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ دو ہی مسئلے موضوع بحث ہیں سیلاب اور عمران خان، سیلاب کی تباہ کاریاں ختم نہیں ہوئیں۔ کے پی کے اور سندھ کے بیشتر علاقے زیر آب آ گئے۔ گاؤں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ بحالی کے لیے 35 ارب درکار، امریکا 6 ارب، 66 کروڑ، چین 3 ارب 21 کروڑ، کینیڈا ایک ارب 11 کروڑ، آسٹریلیا 40 کروڑ روپے دیں گے۔ سعودی عرب، جرمنی، ایران اور بنگلہ دیش نے بھی امداد کا وعدہ کیا۔ ترکی، عرب امارات سے بھی امدادی سامان پہنچ گیا یا پہنچ رہا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا مسلسل کئی روز سے دورے کر رہے ہیں کہیں امداد پہنچ گئی لاکھوں منتظر، پاک فوج کے افسر اور جوان سیلاب میں پھنسے لوگوں کو ریسکیو کرنے کے علاوہ امداد بھی فراہم کر رہے ہیں۔ الخدمت سمیت دیگر فلاحی ادارے بھی سرگرم عمل ہیں لیکن سیاسی جماعتیں کہاں ہیں؟ ملک کی سب سے بڑی جماعت کہلانے کی دعویدار پی ٹی آئی جلسے جلسے کھیل رہی ہے اس کے کپتان عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ ان کی سکیورٹی پر ماہانہ 2 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں مگر ان کے مشاغل میں دن کو عدالتیں اور رات کو جلسے شامل ہیں۔ ملک کو کن بحرانوں کا سامنا ہے۔ معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے کن کوششوں کی ضرورت ہے کیا کوششیں ہو رہی ہیں۔ متاثرین کی بحالی کے لیے کیا کیا جا رہا ہے۔ کیا کیا جانا چاہیے انہیں اس کی فکر نہیں۔ ان کی پوری جدوجہد کا محور وفاقی حکومت گرانا اور فوری انتخابات کا اعلان کرانے کے گرد گھوم رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے قرضہ کی قسط کا مسئلہ حل ہو گیا۔ ایک ارب 16 کروڑ ڈالر موصول ہو گئے مگر عین موقع پر قسط رکوانے کے لیے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی ویڈیو لیک ہو گئی۔ انہوں نے کے پی کے اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو ٹیلیفون پر کہا کہ وہ وفاق کو خط لکھیں کہ دونوں صوبے اس کے حق میں نہیں۔ کے پی کے کے وزیر خزانہ آمادہ ہو گئے اور خط لکھ دیا پنجاب کے وزیر خزانہ محسن لغاری نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا کہ اس قسم کا خط ریاست دشمنی ہو گی یہ سب کیا ہے؟ آئی ایم ایف سے معاہدہ شوکت ترین نے کیا اس کی سخت ترین شرائط منظور کیں پھر خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے اور پیٹرول کی قیمتیں کم کر دیں اتنی سخت شرائط ماننے کی ضرورت کیا تھی کیا یہ احساس نہیں ہوا کہ اس سے مہنگائی بڑھے گی جان بوجھ کر موجودہ حکومت کو مشکلات کا شکار کر دیا ان کی مانی ہوئی شرائط پر عمل کرتے ہوئے حکومت نے پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اندھا دھند اضافہ کیا۔ مہنگائی سیلاب کی طرح سارے بند توڑتی ہوئی 47 فیصد تک بڑھ گئی۔ شرائط ماننے والے بغلیں بجا رہے ہیں۔ گالیاں حکومت کا مقدر، ن لیگ ماری گئی۔ ان تمام معاملات پر پارلیمنٹ حکومت، اپوزیشن کو باہمی
مشاورت سے فیصلے کرنے چاہیے تھے لیکن بد قسمتی سے حکومت اور اپوزیشن ندی کے دو کناروں کی طرح کام کر رہے ہیں کوئی کل سیدھی نہیں۔ گزشتہ پانچ چھ ماہ سے پارلیمنٹ ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے کہ مترادف سپریم نہیں رہی بلکہ بقول رضا ربانی عملاً سرنڈر کر چکی ہے جن دو صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہاں کے وزرائے اعلیٰ اپنے مربی کی خوشنودی کے لیے دن رات سر گرم عمل ہیں۔ کے پی کے وزیر اعلیٰ اپنا حق چھیننے کی دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ ایک فیصلے کے تحت بننے والی پنجاب حکومت کے وزیر اعلیٰ ن لیگ کے رہنماؤں کی گرفتاریوں اور عمران خان کے جلسوں کی کامیابی کیلئے ہاتھ پاؤں مارتے بلکہ چلاتے نظر آتے ہیں، اس سے عوام میں مایوسی اور غصہ بڑھ رہا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کو ان دنوں سیلاب زدگان کی اشک شوئی کے لیے متاثرہ علاقوں میں ہونا چاہیے تھا لیکن انہیں سرگودھا اور گجرات کے جلسوں سے فرصت نہیں ملی، چودھری صاحب پرانے تجربے کار سیاستدان ہیں لیکن کیا کریں ان کے پاس صرف دس ارکان ہیں۔ 168 ارکان والی جماعت کا کہا نہ مانیں تو کہاں جائیں۔ ادھر ہوتے تو حالات مختلف ہوتے ادھر چلے گئے تو ادھر کے ہو کے رہ گئے۔ چھوڑیں کوئی اور بات کریں وزیر اعلیٰ دو کشتیوں کے سوار ہیں۔ اوپر والوں سے پرانے روابط نیچے والوں سے نئی قربتیں، احتیاط سے چلنے کی کوشش کر رہے ہیں کیسے چلیں گے بحث طلب معاملہ، بات کہاں سے چلی کہاں پہنچی۔ کپتان ان دنوں جلسے جلسے کھیل رہے ہیں کسی نے کہا ”سیلاب بستی میں اپنا کپتان مستی میں“ ہر جلسے میں ایک جیسی تقریر، اے بی سی ڈی سے ایکس وائی زی تک تمام مربیوں سے گلے شکوے، چور ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا ایک وائی زیڈ سمجھ لیں، چار افراد کے نام بتا دوں گا، بتا کیوں نہیں دیتے ایک جلسہ میں کہا میں ہر روز خطرناک ہوتا جا رہا ہوں۔ دیوار سے لگایا تو اور خطرناک ہو جاؤں گا۔ ڈینجرز مین، ٹرمینیٹر اور نامعلوم کیا کیا ہونے جا رہے ہیں۔ فواد چودھری ان سے زیادہ خطرناک ہو رہے ہیں۔ وہ عدالتوں کی نہ صرف توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں بلکہ دھمکیوں پر اتر آئے ہیں۔ کہا کہ عمران کو ہٹا کر خود کیسے رہیں گے۔ ججمنٹ عمران کیخلاف آئی تو فیصلہ عوام کریں گے جنہیں نا اہل کیا گیا۔ وہ اپنی مقبولیت کھو چکے تھے عمران خان مقبولیت کی بلندیوں پر ہیں انہیں کون نا اہل کر سکتا ہے۔ کمال ہے انہیں توہین عدالت کا کوئی نوٹس نہیں ملا۔ پی ٹی آئی کی ایک خاتون کارکن نے کہا عمران نہیں تو پاکستان نہیں، انہیں کچھ ہوا تو پاکستان کو بند کر کے آگ لگا دیں گے۔ ذہنی پستی کی انتہا ہے بقول شخصے ”کارکن ہوں میں اوقات ہی کیا ہے لیکن شہر میں آگ لگانے کے لیے کافی ہوں“ کپتان خود کہا کرتے تھے کہ ملک میں کمزور اور طاقتور کے لیے الگ قانون ہے۔ اب موقف یہ ہے کہ میں ورلڈ کپ جیت کے لایا یونیورسٹی قائم کی۔ ہسپتال تعمیر کیا سب سے بڑی جماعت کا سربراہ ہوں مجھے کیسے ہاتھ لگاؤ گے۔ بھول گئے کہ 1973 کے آئین کے معمار ایٹمی پروگرام کی خشت اول رکھنے والے اور عوام کے مقبول ترین لیڈر کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ 16 ماہ بعد عوام سڑکوں پر نکلے، ایٹمی پروگرام کو مکمل کرنے والے ڈاکٹر عبدالقدیر کو معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا۔ ایٹمی دھاکے کر کے ملک کو ناقابل تسخیر بنانے والے اور دو تہائی اکثریت سے تین بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو گاڈ فادر اور سسیلین گینگ قرار دے کر تا حیات نا اہل کر دیا گیا۔ عمران خان پر قیامتیں ٹوٹ رہی ہیں تو شور و غوغا کیوں؟ کپتان پر 21 مقدمات ہیں۔ مزید مقدمات منتظر ہیں۔ 31 اگست کی سماعت میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ان پر بہت کچھ واضح کر دیا شوکاز نوٹس پر ان کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ ہمارے سامنے سپریم کورٹ کے نا اہلی سے متعلق تین فیصلے ہیں ہم ان سے باہر نہیں جا سکتے، توہین عدالت کا کیس واضح ہے یا نہیں کپتان نے ایک خاتون جج کی توہین کی یا نہیں؟ پتا نہیں، بقول بینچ کے ایک فاضل جسٹس کے مقدمہ 31 اگست ہی کو ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن انہیں 8 ستمبر تک سوچ سمجھ کر جواب داخل کرنے کی ہدایت کی گئی۔ پہلے جواب میں بنچ پر اعتراض اور جج کو دھمکی دی گئی تھی معافی مانگنے کے بجائے کہا کہ الفاظ ناگوار لگے تو واپس لینے کو تیار ہوں۔ کیا 8 ستمبر کے جواب الجواب میں غیر مشروط معافی مانگ لیں گے۔ لگدا تے نئیں پر شاید، اس سے پہلے والوں نے بھی تو غیر مشروط معافیاں، مانگی تھیں۔ قانون سب کے لیے برابر عدالتیں آزاد، تعلقات کوئی معنی نہیں رکھتے، قانون اپنا راستہ بنائے گا آزمائش شرط، کپتان فیصلے کے بعد راستہ بدل لیں گے۔ بڑی عدالت میں بھی کیس زیر سماعت ہے۔ اس نے 13 ستمبر تک ضمانت منظور کی ہے۔ اب تک ضمانتیں ہو رہی ہیں۔ کپتان محفوظ ہیں اسی لیے روز بروز خطرناک ہوتے جا رہے ہیں لیکن کب تک بھاری مقدمات پائپ لائن میں ہیں۔ توشہ خانہ کیس، کروڑوں کے تحائف بیچے رقم ظاہر نہیں کی، فارن فنڈنگ کیس، اربوں وصول کیے آئین کی خلاف ورزی غلط فارم بھرے اکاؤنٹس ظاہر نہیں کیے۔ شہباز گل کا مقدمہ سوچیں تو انتہائی خطرناک، سمجھیں تو صریحاً بغاوت دیکھیں تو انتہائی سہل، تشدد کے سہارے جیل میں عیش کی زندگی گزار رہے ہیں بقول شاعر بیچ دے اپنی انا اپنی للک اپنا ضمیر پھر تیرے ہاتھ میں سونے کے نوالے ہوں گے۔ ستمبر ستم گر قرار دیا جا رہا ہے۔ تجزیہ کار اسے سزاؤں کا مہینہ کہتے ہیں ان کا خیال ہے کہ دریچے اب کھلے ملنے لگے ہیں فضا ہموار ہوتی جا رہی ہے۔ مگر معاملات آہ و فغاں الجھے ہوئے ہیں۔ روایات سے جدا ہونا ہمیں اچھا نہیں لگتا مگر ہم اتنا گر چکے ہیں اپنے معیار دیانت سے خدا کا بھی خدا ہونا ہمیں اچھا نہیں لگتا۔ ستمبر کس پر ستم ڈھائے گا۔ شہنائیاں کہاں بجیں گی ماتم کہاں ہو گا۔ بارشوں اور ندی نالوں میں آنے والا سیلاب لوگوں کو بہا لے گیا۔ خطرناک بننے سے جذبات میں آنے والے سیلاب سے کیا تباہی ہو گی آنے والا وقت بتائے گا فیصلے ہونے ہیں شاید اسی مہینے ہوں گے۔