سی پیک کا منصوبہ اور افغانستان

Atta ur Rehman, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

افغانستان میں طالبان کو برسرِ اقتدار آئے ابھی 3 ہفتے  نہیں گزرے اور اس ملک سے امریکی قابض فوج کے آخری سپاہی کے انخلا کے محض چار دن بعد نئی حکومت کی جو ابھی زیرِتشکیل ہے جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ ہمسایہ اور نقشہ عالم پر تیزی سے ابھرتی سپر طاقت عوامی جمہوریہ چین ملکِ افغاناں میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرے گا…… اس کی ویران معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے میں بھرپور مدد کرے گا اور اہم تر بات جس کا طالبان کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ چین اپنے شہرہ آفاق تعمیراتی منصوبے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ کی ایک گذرگاہ افغانستان میں بھی بنائے گا…… یوں نئے دور کا ملکِ افغاناں اس عہدساز اقتصادی و صنعتی منصوبے کے ساتھ بھی جس کا پاکستان پہلے سے ہی اہم حصہ ہے منسلک ہو جائے گا…… یہ بلاشبہ افغانستان، پاکستان اور چین تینوں کے نقطہ نظر سے اہم تر پیش رفت ہو گی…… اس اعلان اور ہمارے پورے خطے پر پڑنے والے اس کے نتائج و مضمرات کا جائزہ لینے کے ساتھ یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ طالبان کی زیرتشکیل اور نئی نئی برسراقتدار آنے والی حکومت کی جانب سے خارجہ پالیسی اور اقتصادی و معاشی منصوبہ بندی کی عکاسی کرنے والا یہ پہلا پالیسی بیان (Statement) ہے…… اسی سے افغان طالبان جنہیں خارجہ پالیسی کی نزاکتیں اور عہد جدید میں اس کے تقاضے تو دور کی بات ہے حکومت کرنے کا بھی خاص تجربہ نہیں …… خطے کے زمینی و سیاسی حقائق سے گہری واقفیت اور ادراک کا پتا چلتا ہے اور یہ کہ وہ اپنے نوآزاد ملک کو کس راستے پر ڈال کر ملکی معیشت کو بھی سنوارنا چاہتے ہیں اور پورے علاقے کے اندر کس قسم کا کردار ادا کرنے کے متمنی ہیں …… اسی سے ”ون بیلٹ ون روڈ“ یا سی پیک جیسے منصوبے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ محض چین و پاکستان کو نہیں مستقبل قریب میں افغانستان کو بھی اپنے ساتھ ملا کر خطے کے اندر باہمی تجارت و صنعتی تعاون کو کون سی نئی جہت اور کن کن نئے امکانات کو روشن کر سکتا ہے……
پاکستان 2014 میں ہی اپنے دیرینہ دوست چین کے اشتراک کے ساتھ اس منصوبے کا حصہ بن گیا تھا…… اگرچہ اس پر باقاعدہ کام ہمارے داخلی سیاسی حالات کی (عمران خان اور طاہرالقادری کا دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا جس کی وجہ سے چین کے صدر جناب چن ژی کا طیارہ ہمارے حکومتی صدر مقام پر اتر نہ سکا اور ان کا دورہ سال بھر کے لئے موخر ہو گیا) بنا پر اس کا پورے زوروشور کے ساتھ تعمیراتی آغاز  2015 میں ہو سکا…… تاہم اس وقت کی حکومت کی جانب سے منصوبے کے ابتدائی مراحل کو تیزی سے آگے بڑھانے اور چند سالوں کے اندر پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ہرممکن کوشش کی گئی کیونکہ وہ اپنے جلو میں سرمایہ کاری کے کئی منصوبوں اور پاکستان کی سرزمین کو ایک اہم ترین تجارتی گزرگاہ بنانے کے سوچے سمجھے منصوبے اور ارادے کے ساتھ شروع ہوا تھا…… اگر یہ کام جسے اس وقت بجاطور پر ایشیا کا سب سے بڑا اور نہایت درجہ دیرپا اثرات رکھنے والا منصوبہ قرار دیا گیا تھا اسی رفتارِ کار کے ساتھ جاری رہتا تو آج نئی افغان حکومت کے اس میں شرکت کے اعلان کو صرف اس ملک کی قسمت نہیں اس منصوبے کی عملیات کے ساتھ بھرپور طریقے سے منسلک ہونے کی بنا پر پاکستان کے کردار کو کئی گنا زیادہ اہمیت مل جاتی…… لیکن 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار آنے اور عمران خان کو وزیراعظم بنانے والی تحریک انصاف کی حکومت نے امریکی دباؤ میں آ کر اسے سست روی کا شکار کر دیا…… عمران خان کی کابینہ نے حلف اٹھانے کے فوراً بعد اس کے مشیر تجارت اور پاکستان کے ممتاز امریکہ نواز صنعت کار عبدالرزاق داؤد نے اعلان کیا سی پیک پر 
ہونے والے کام کو کم از کم ایک سال کے لئے معرض التوا میں ڈال دینا چاہئے…… اس کے بعد نئی اتھارٹی قائم کر کے مقتدر قوتوں کے منظورنظر اور نئے نئے ریٹائر ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کو سی پیک کا سربراہ بنا دیا گیا مگر ان کی ذات و کردار پر سر منڈاتے ہی اولے پڑنے شروع ہو گئے…… کرپشن کا سخت تر الزام لگا اور امریکہ میں ان کی اہلیہ اور بھائی کا اربوں ڈالر کے حامل وسیع تر کاروبار کا انکشاف ہوا…… جنرل عاصم سلیم باجوہ نوازشریف تو نہیں تھے جن پر اس نوعیت کے سخت ترین الزامات کی بارش کر کے فوراً ان کی اور خاندان کی دولت کا حساب مانگا جاتا…… پانامہ کا سکینڈل ان کے سر مونڈھ دیا جاتا…… منی ٹریل طلب کی جاتی…… حقیقی کرپشن اس کے باوجود ثابت نہ ہوتی تو اقامہ جیسے مضحکہ خیز الزام پر سپریم کورٹ کے تابع فرمان ججوں کے ذریعے اس کا عہدہ اڑا کر رکھ دیا جاتا اور معاً بعد عمر بھر کے لئے نااہل قرار دے دیا جاتا…… یہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ تھے جو پہلے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل اور اس کے بعد ساؤدرن کمانڈ  کے سپہ سالار رہے ان کے خلاف ایک مستند اخباری خبر کے ذریعے بے پناہ کرپشن کے الزامات منظرعام پر آئے تو موصوف نے بس اتنا کیا کہ وزیراعظم عمران خان سے ایک ملاقات کی…… اپنے تئیں وضاحت پیش کی جس پر عمران خان بہادر نے سنتے ہی اپنے اطمینان کا اظہار کر دیا اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے کام جاری رکھنے کی ہدایت کر دی…… موصوف نے ”حکم“ کی پیروی کی اور ذمہ داریوں کی ادائیگی جاری رکھی مگر ان کی شخصیت داغدار ہو چکی تھی…… اپوزیشن کے کچھ جیّد رہنما ان پر تابڑتوڑ حملے کر رہے تھے…… ظاہر ہے اس صورت حال نے ان کی کارکردگی اور ساکھ پر منفی اثرات ڈالے …… سی پیک کا منصوبہ عمران حکومت کے آتے ہی جس سست روی کا شکار ہوا تھا وہ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے سبز قدموں کی بدولت مزید متاثر ہوا…… چین کو اس پر تشویش ہوئی…… اس نے ڈپلومیٹک انداز میں اپنی خفگی کا اظہار کیا…… اسی دوران کچھ تعمیراتی کاموں پر فرائض سرانجام دینے والے چینی انجینئروں اور کارکنوں کی گاڑی پر دہشت گردی کا حملہ بھی ہوا جس کی وجہ سے 9 کے قریب چینی مہمانوں کی لاشیں واپس بھجوانا پڑیں …… چین کی جانب سے خلافِ معمول کھل کر ناراضگی کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان میں خدمات سرانجام دینے والے اس کے ماہرین کی زندگیاں غیرمحفوظ ہیں …… ہماری جانب سے اگرچہ بہت سی یقین دہانیاں کرائی گئیں لیکن چین جیسے دیرینہ اور ہر برے وقت میں کام آنے والے دوست کے تحفظات دور نہ ہوئے…… سی پیک کا منصوبہ اگرچہ اس دوران بھی جاری رہا لیکن سخت بے دلی کا شکار ہو گیا…… اب چند ہفتے پہلے عاصم سلیم باجوہ صاحب صورت حال کے دباؤ کی وجہ سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئے ہیں اور ایک نئی مگر سویلین شخص کو اتھارٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نوعیت کے کاموں کا تجربہ رکھتے ہیں لہٰذا اپنی ذمہ داریاں بہتر طریقے سے سرانجام دیں گے لیکن نوازشریف کے عہد والی صورت حال نہیں جب پارلیمنٹ کا رکن ایک وفاقی وزیر باقاعدہ اس منصوبے کا سربراہ تھا اور ایک ایک قدم کے لئے ملک کے سب سے بڑے حکمران ادارے کے سامنے جواب دہ تھا……
ان تمام باتوں سے قطع نظر اب جو افغانستان کی نئی یا طالبان کی حکومت جو پاکستان کی دوست ہے اور چین کے ساتھ بھی باہمی اعتماد اور گہرے تعاون کے تعلقات کی شروعات کرنے میں اس نے دیر نہیں لگائی…… افغانستان بھی ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کا حصہ بننے جا رہا ہے تو پاکستان کے حکمرانوں کو پہلا کام یہ کرنا چاہئے کہ سی پیک کے کام میں جتنی تاخیر ہو چکی سو ہو چکی اب اسے مزید سست روی کا شکار نہیں رہنے دینا چاہئے تاکہ افغانستان میں بھی اس منصوبے کی اٹھان ہو تو اسے جغرافیائی، تجارتی اور صنعتی لحاظ سے پاکستان کے ساتھ منطبق ہونے میں مشکل پیش نہ آئے…… حق یہ ہے پاکستان، چین اور افغانستان سٹرٹیجک اور ’ون بیلٹ ون روڈ‘ یا سی پیک جیسے عہدساز تجارتی اور صنعتی منصوبے سے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہو کر پورے خطے اور اس کے عوام کی قسمت بدل کر رکھ سکتے ہیں …… اس کا سٹرٹیجک دھارا تبدیل کر کے رکھ دیں گے چنانچہ طالبان کی افغان حکومت کی جانب سے اس میں شرکت کے اعلان نے سی پیک میں نئی روح پھونک دی ہے…… حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کسی قسم کے امریکی دباؤ کو خاطر میں نہ لائیں اپنے ملک کے اندر جاری اس منصوبے کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے اور چین کے تعاون سے اسے ارض افغانستان کے ساتھ منسلک کرنے میں کسی قسم کی تاخیر یا تساہل سے کام نہ لیں …… حالات نے ہمیں ایک دفعہ پھر موقع دیا ہے کہ اس اہم منصوبے کے تمام تر صنعتی و تجارتی امکانات کو بروئے کار لا کر پاکستان کو تجارتی اور اقتصادی لحاظ سے ایک اہم مقام پر لاکھڑا کریں …… عمران حکومت اور اس کی پشت پناہی کرنے والے مقتدر عناصر اس موقع سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں اور چین و افغانستان دونوں کے ساتھ ہمارے گہرے اور دیرینہ تعلقات کو کس نئی قوتِ عمل کے ساتھ خطے کی تاریخ بدل دینے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اس کا آنے والے دنوں میں پتا چل جائے گا…… پاکستان اور افغانستان دونوں کا بہترین مفاد اسی کا تقاضا کرتا ہے کہ دونوں مل کر عوامی جمہوریہ چین کے تعاون کے ساتھ اس منصوبے کو آگے بڑھائیں اور ہر لحاظ سے نتیجہ خیز بنائیں ……