ستمبر 1965ء کی جنگ کی وجہ مقبوضہ کشمیر کا تنازعہ تھی۔ اقوامِ متحدہ میں کشمیر میں استصواب رائے کا حق تسلیم کرنے کے باوجود بھارت ہمیشہ لیت ولعل سے کام لیتا رہا۔ اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ مودی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35-A کا خاتمہ کرکے کشمیر کو بھارت میں ضم کر لیا ہے جو کشمیر کی بین الاقوامی سطح پر متنازع حیثیت کے بالکل برعکس ہے۔ سات عشرے گزر چکے، وہ کون سا ظلم ہے جو بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں روا نہیں رکھا۔ حیرت تو اِس بات پر ہے کہ عالمی امن کے ٹھیکیداروں کے سامنے ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں لیکن اُن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یکم ستمبر کو حریت رَہنماء سیّد علی گیلانی خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اُن کے انتقال کے بعد بھی بھارتی فوج اتنی خوفزدہ تھی کہ اُن کے پاکستانی پرچم میں لپٹے جسدِخاکی کو زبردستی تحویل میں لینے کے بعد رات کے اندھیرے میں ہی تدفین کر دی گئی۔ جسدِخاکی کوزبردستی چھیننے پرفیض یاد آئے۔
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن، میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
کل یومِ دفاع ہے، وہ دن جب بھارت نے اپنی اندھی طاقت کے بَل پر لاہور کو فتح کرنے کی نیت سے رات کے اندھیرے میں تین اطراف سے حملہ کردیا۔ وہ دن جب افواجِ پاکستان نے اپنے سے پانچ گنا بڑی طاقت کو ناکوں چنے چبوائے۔ 6 سے 23 ستمبر 1965 کی 17 روزہ پاک بھارت جنگ میں افواجِ پاکستان کے جَری جوانوں نے عزم وہمت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔ اِس جنگ میں بھارت کے پاس 600 لڑاکا طیارے، 908 ٹینک، 755 توپیں اور 8 لاکھ 67 ہزار پیادہ فوج تھی۔ جبکہ پاکستان کے پاس 120 لڑاکا طیارے، 500 ٹینک، 550 توپیں اور صرف 2 لاکھ فوج۔ اپنے جدید آلاتِ حرب اور روس و امریکہ کی پُشت پناہی کے بَل پر بھارتی جرنیلوں کا خیال تھا کہ وہ صبح کا ناشتہ لاہور میں کریں گے اور شام کوجم خانہ کلب میں شراب کے جام لنڈھائیں گے۔اُن کا یہ پروگرام بھی تھا کہ اُسی دن بھارتی وزیرِاعظم لال بہادر شاستری کو مال روڈ پر گارڈ آف آنر پیش کیا جائے گا۔ وہ احمق نہیں جانتے تھے کہ ہتھیار نہیں جذبہ فتحِ مبیں کی خوشخبری دیتا ہے۔ پھر بھلا اُن جوانوں کو کون شکست دے سکتا تھا جن کا مطلوب ومقصود ہی شہادت ہو۔ بھارت نے اِس 17 روزہ جنگ میں لاہور پر 13 دنوں میں 11 حملے کیے اور ہر حملے کے بعد اپنے ”سورماؤں“ کی لاشیں چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریشہ دوانیوں کو
دیکھ کر پہلے آپریشن جبرالٹر اور بعد میں آپریشن گرینڈ سلام شروع کیا گیا۔آپریشن گرینڈ سلام کا مقصد اکھنور کی فتح تھی۔ اگر اکھنور فتح ہو جاتا تو بھارت کو کشمیر سے ملانے والے تمام راستے بند ہو جاتے۔ جب کشمیر کو بھارت سے کاٹنے کے لیے اکھنور کی جانب تیزی سے پیش قدمی جاری تھی تو اچانک اِسے روک کر آپریشن گرینڈ سلام کے خالق اختر حسین ملک کی جگہ میجر جنرل یحییٰ خاں کو آپریشن کی کمان دے دی گئی۔ کمان چھوڑنے کے بعد جنرل اختر ملک سیکرٹری اطلاعات سے ملے تو آبدیدہ ہو گئے اور کہا کہ میں اپنے بچوں کو کیا جواب دوں گا۔ کمان کی تبدیلی سے بھارت کو سنبھلنے کے لیے 36 گھنٹے مل گئے اور اکھنور کی فتح کا خواب ادھورا رہ گیا۔ جنگ کے بعد بھارتی جنرل گور بخش سنگھ نے اپنی کتاب میں لکھا ”اکھنور کی جانب پاکستانی پیش قدمی کا 36 گھنٹوں تک خود بخود رک جانا ہمارے لیے آسمانی مدد تھی“۔ آج تک اِس راز سے پردہ نہیں اُٹھایا جا سکا کہ اِس نازک مرحلے پر جنرل ایوب اور جنرل موسیٰ نے کمان کیوں تبدیل کی۔ یہ قصّہ ماضی کا ہے لیکن پھر بھی تاریخ کی درستی کے لیے نونہالانِ وطن کو اِس سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔
آمدم بَر سر مطلب 6 ستمبر کی صبح لاہور میں ناشتہ کرنے اور جم خانہ میں شراب پینے کے شوقین جب حملہ آور ہوئے تو اُن کا سامنا عزم وہمت کے پیکر میجر عزیزبھٹی سے ہوا جو اُس وقت لاہور کے سیکٹر انچارج تھے۔ میجر عزیزبھٹی 5 روز تک دشمن کے سامنے سدِ سکندری بن کے کھڑے رہے اور دشمن کو ایک انچ بھی آگے بڑھنے نہیں دیا۔ پانچویں روز وہ اپنا مطلوب ومقصود پا گئے کہ ایک مومن کی معراج شہادت۔ قوم میجر عزیز بھٹی شہید (نشانِ حیدر) کو کبھی بھلا نہیں پائے گی۔ صرف لاہور ہی نہیں، بھارت نے بیک وقت کئی محاذ کھولے جن میں چونڈہ بھی ایک تھاجہاں جنگِ عظیم دوم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ لڑی گئی۔ چونڈہ سیکٹر کو بھارتی ٹینکوں اور سورماؤں کا قبرستان بنا دیا۔چونڈہ کے محاذ پر 150 بھارتی ٹینک تباہ ہوئے۔
صرف افواجِ پاکستان ہی نہیں پوری قوم بھی دفاعِ وطن کے لیے یک جان ہو چکی تھی۔ لوگ فوجی جوانوں کو اشیائے خورونوش پہنچانے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے رہے تھے۔ خواتین اپنے زیور جنگ فنڈ میں جمع کروا رہی تھیں۔ محاذِ جنگ پر زخمی ہو جانے والے جوانوں کے لیے ہسپتالوں میں خون کے عطیات دینے والوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ بے خوفی کا یہ عالم تھا کہ لوگ فوجیوں کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے ڈنڈے لے کر محاذوں پر پہنچ گئے۔ جب ہمارے شاہیں لاہور کی فضاؤں میں دشمن کے جہازوں کو شکار کرنے کے لیے اُڑے تو لاہوریے چھتوں پرچڑھ کر ”بو کاٹا، بوکاٹا کے نعرے لگاتے رہے۔ حیرت ہے کہ اِس دوران کوئی چوری ہوئی، ڈاکہ پڑا نہ قتل ہوا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے صرف جرّی جوان ہی نہیں، پوری قوم جذبہئ شوقِ شہادت سے سرشار ہو۔
اِس 17 روزہ جنگ میں پاک فضائیہ نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ پاک فضائیہ کے سکوارڈن لیڈر ایم ایم عالم کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اُنہوں نے محض 30 سیکنڈ میں بھارت کے 4 ہنٹر طیارے مار گرائے اور اگلے 30 سیکنڈ میں 5 واں طیارہ بھی زمیں بوس کر دیا۔ ایک منٹ میں 5 ہنٹر طیاروں کو مار گرانے کا یہ ایسا عالمی ریکارڈ ہے جسے آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ایم ایم عالم نے جنگِ ستمبر میں کل 9 طیارے گرائے۔ جنگِ ستمبر کے موقع پر پاک فضائیہ نے ارضِ وطن کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے نہ صرف جانوں کی قربانیاں دیں بلکہ دشمن کی فضائیہ کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ 6 ستمبر کو ہی پاک فضائیہ نے بھارت کے فضائی اڈوں پٹھان کوٹ، اعظم پور اور ہلواڑہ پر بھرپور حملے کیے۔ صرف پٹھان کوٹ میں پاک فضائیہ نے بھارت کے 10 طیارے تباہ کیے اور بہت سے طیاروں کو نقصان پہنچایا۔ 17 روزہ جنگ میں زمین پر تباہ ہونے والے بھارتی طیاروں کی تعداد 43 تھی جبکہ 35 طیاروں کو فضامیں مار گرایا گیا اور 32 بھارتی طیارے پاکستانی طیارہ شکن توپوں کا نشانہ بنے۔۔ آزاد ذرائع کے مطابق پاک فضائیہ کے 20 اور بھارتی فضائیہ کے 110 طیارے تباہ ہوئے۔
اِس جنگ میں پاک بحریہ بھی پیچھے نہ رہی۔ پاکستان کے پاس اُس وقت صرف ایک آبدوز تھی۔ غازی نامی اِس آبدوز نے وہ کارنامہ سرانجام دیا جسے تاریخِ دفاع کا روشن چہرہ کہا جا سکتا ہے۔ 7 ستمبر کو غازی آبدوز نے بھارت کے ساحلی اڈے ”دوارکا“ کو تباہ کیا۔ دوارکا میں بھارتی بحریہ کا ریڈار اسٹیشن اور فضائی اڈہ بھی تھا جسے ساڑھے 4 منٹ کی مسلسل گولہ باری کرکے تباہ کر دیا گیا۔ دوارکا میں موجود ایک سیمنٹ فیکٹری بھی گولہ باری کی زد میں آکر راکھ کا ڈھیر بن گئی۔ دوارکا کی تباہی کے بعد بھارت کی بحری طاقت نیست ونابود ہوگئی۔ پاک بحریہ نے بھارت کے کئی تجارتی بحری بیڑوں کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا۔ جنگِ ستمبر میں جرّی جوانوں نے دشمن پر ایسی دھاک بٹھائی کہ بھارتی وزیرِاعظم لال بہادر شاستری ”شانتی شانتی“ کی دُہائیاں دینے لگا۔ 24 ستمبر کو جنگ بندی ہوئی اور پھر روس میں معروف ”معاہدہ تاشقند“ ہوا جو ایوب خاں کے زوال کا باعث بنا۔