سعودی عرب میں غیر ملکی ملازموں کے لیے خطرے کی گھنٹی

08:51 PM, 5 Sep, 2018

جدہ :سعودی عرب میں مقامی باشندوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہونے کی وجہ سے  لاکھوں غیر مُلکی ملازمین کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی۔

تفصیلات کے مطابق حکومتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس  وقت مملکت میں بے روزگاری کی شرح 12.8 فیصد ہے۔ اس شرح میں کمی لانے کے لیے مختلف اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں۔کئی شعبے ایسے ہیں جن میں 70 فیصد ملازمتیں سعودی باشندوں کے لیے مخصوص کر دی گئی ہیں۔ تاہم ابھی بھی لاکھوں سعودی بے روزگار ہی۔

سعودائزیشن کی پالیسی نے مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کر لی ہے جس کے تحت مستقبل قریب میں سرکاری اور نجی شعبوں میں جونیئر اور سینیئر پوزیشنز پر بڑی تعداد میں سعودیوں کو تعینات کیا جائے گا۔ جبکہ غیر مُلکی ملازمین کی بڑی تعداد کو نوکریوں سے برخاست کر دیا جائے۔ سب سے پہلے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار اور کمپنیوں سے منسلک غیر مُلکیوں کو فارغ کر کے اُن کی جگہ سعودی بھرتی کیے جائیں گے۔ 


نئی حکمت عملی کے تحت وزارت محنت و سماجی بہبود نجی شعبے کی 90فیصد فرمز کو پابند کرے گی کہ وہ غیر مُلکی ملازمین کو ملازمت فراہم کرنے پر حکومت کی جانب سے عائد بھاری فیس کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن پر سعودی ملازم کو ترجیح دیں۔ اس وقت سعودی ملازمین جونیئر لیول پر تین ہزار ریال سے پانچ ہزار ریال کے درمیان ماہانہ تنخواہ حاصل کر رہے ہیں۔ جبکہ کمپنیوں میں سینئر عہدوں پر تعینات سعودیوں کی گنتی اس وقت 15فیصد سے 20 فیصد کے درمیان ہے۔ 


 جدہ کی شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی کی اکنامکس فیکلٹی میں قائم ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر خالد میمانی کا کہنا ہے کہ اکثر سعودی ملازم نجی کمپنیوں کی ملازمت چھوڑ دیتے ہیں ، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کئی بڑی کمپنیوں میں اعلیٰ اور درمیانے عہدوں پر غیر مُلکی فائز ہیں، جس کے باعث غیر مُلکی انتظامیہ اور سعودی ملازمین کے مابین عدم اعتماد کی فضا قائم نہیں ہوتی۔ 


دُوسری طرف متحدہ عرب امارات کی مثال لی جائے تو وہاں بھی مقامی باشندوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے خصوصی اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں۔ مگر سعودی عرب کی مانند یہاں غیر مُلکیوں کے مستقبل کو کوئی خطرہ لاحق نہیں‘ کیونکہ امارات میں جہاں اماراتی باشندوں میں تکنیکی اور تعلیمی مہارتیں بڑھانے کی جانب توجہ دی جا رہی ہے وہاں مارکیٹ میں لاکھوں نئی ملازمتیں پیدا کرنے کا کام بھی جاری ہے۔ 

مزیدخبریں