اسلام آباد : سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکائونٹس کی تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دے دیا ، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے جعلی بینک اکائونٹس کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ کسی بڑے آدمی کو پکڑیں تو وہ بیمار ہو جاتا ہے اور جوان بچے آپ کے پکڑنے پر بیمار ہو جاتے ہیں۔
ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ ہمارے پاس لاک اپ ہے جہاں تفتیش کرتے ہیں لیکن ملزم پرتعش زندگی کے عادی ہوتے ہیں ، انھوں نے کہا کہ انور مجید کے کراچی کے دفتر پر چھاپے میں دبئی کی کمپنیوں کا انکشاف ہوا ہے ، ان کمپنیوں کے اکائونٹس میں کئی ملین درہم موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فارن کرنسی اکائونٹس کے ذریعے انگلینڈ اور فرانس پیسے بھجوائے جا رہے ہیں اور جعلی بینک اکائونٹس کے ذریعے رقم منتقل کی جا رہی ہے ، جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا آپ کے پاس فارن کرنسی سے متعلق کوئی ماہر بندہ ہے ؟ چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ کو جدید تربیت یافتہ ٹیم چاہئے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں جے آئی ٹی بنانی چاہئے ، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانا عدالت کی ضرورت ہے جس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے، اس موقع پر انور مجید اور عبدالغنی مجید کے وکیل شاہد حامد نے جے آئی ٹی سے متعلق جمع کرائی گئی متفرق درخواست پر غور کی درخواست کی ۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ انور مجید کی وزیراعلیٰ کے ساتھ گفتگو بھی موجود ہے ، کہا گیا کہ انور مجید وزیراعلیٰ کے گھر پر رہ لیں ، آپ باتیں رہنے دیں ، ہم مقدمے کو پنجاب منتقل کر دیتے ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ ہم جعلی اکائونٹس کی پہلے کی گئی تحقیقات کے بجائے جے آئی ٹی بنا کر اس سے ازسرنو تحقیقات کرا لیتے ہیں ، 35 ارب روپے کے فراڈ کا معاملہ ہےجس کی شفاف تحقیقات چاہتے ہیں اور سچ سامنے لانا چاہتے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ فی الحال کسی پر الزام نہیں لگا رہے ہیں تحقیقاتی ٹیم کے اراکین کے نام بعد میں بتائے جائیں گے ، عدالت رعایت دے رہی ہے اور ٹرائل کورٹ کی کارروائی روک دی جائے گی ۔
وکیل شاہد حامد نے کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی مخالفت کی ، انھوں نے کہا کہ کیس میں سیاسی لوگوں کی شمولیت سے تاثر دیا جا رہا ہے جیسے کرپشن کی گئی ، ہر سماعت کے بعد میڈیا پر پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں ، تحقیقاتی ادارے کو عدالت کیسے کہہ سکتی ہے کہ ایسے تحقیقات کریں اور ایسے نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میڈیا کو کنٹرول کر لیتے ہیں پر بتائیں جے آئی ٹی کیوں نہ بنائیں ، ہمیں بتائیں کہ کورٹ کو جے آئی ٹی بنانے پر کیسے پابندی ہے ؟