آج کل ہماری عدالتیں بہت فعال نظر آ رہی ہیں، ہماری سیاسی جماعتوں اور قائدین نے چھوٹے بڑے فیصلے خود کرنے کی بجائے یہ ذمہ داری عدلیہ کے سپرد کر رکھی ہے۔ ہماری عدالتی تاریخ اس حوالے سے بہت روشن روایات کی حامل نہیں ہے پاکستان کو آئین و قانون کی پٹڑی سے اتارنے اور طالع آزماؤں کو اقتدار کھیل کھیلنے کی اجازت دے کر شرمناک اقدام اٹھایا۔ جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کے تحت دیئے گئے فیصلے کے بعد سے آج تک ہم اس شاہراہ دستور پر محوِ سفر ہو ہی نہیں سکے جو تعمیروترقی اور قومی یکجہتی کی منزل کی طرف جاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم آج تک یہ بات حتمی طور پر طے نہیں کر سکے کہ ملک میں کون مقتدر ہے کون SOVEREIGN ہے۔ اس ملک پر حق حکمرانی کس کا ہے؟ عوام کا یہ طبقہ اشرافیہ کا، اسٹیبلشمنٹ کا یا ایک فیصد امرا کا جو معیتِ حاکمہ میں مستقل حیثیت کے حامل ہیں۔ سول بیوروکریسی یا یونیفارم بیوروکریسی قومی معاملات چلانے کی ذمہ دار ہے؟ ہم ابھی تک یہ بات طے نہیں کر سکے ہیں کہ حاکمیت کس کی ہے۔ ویسے تو آئین پاکستان میں واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ حاکمیت اللہ کی ہے وہی مقتدر اعلیٰ ہے جبکہ حکمرانی قرآن و سنت صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے مطابق کی جائے گی اور عوامی نمائندے قرآن و سنت کے مطابق ریاستی معاملات چلانے کے ذمہ دار ہوں گے۔
اسی آئین کی موجودگی میں جنرل ضیاء الحق نے گیارہ سال حکومت کی۔ عوامی نمائندے بھی منتخب کرائے، اسی آئین میں ترمیم بھی کی، اپنے مارشل لا کو درست قرار دلوایا اور مارشل لا دور کے تمام احکامات کو جائز بھی منوایا۔ پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اسی آئین کی موجودگی میں جنرل مشرف اس وقت تک مقتدر اعلیٰ رہے جب تک ان کے قویٰ نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت دیتے رہے۔ عدالتیں ان کے ساتھ رہیں ایسے ہی جیسے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ تھیں۔ جنرل ضیاء الحق کو بھٹو خاندان کے خلاف شریف خاندان مل گیا بلکہ انہوں نے تلاش کیا اس کی آبیاری کی، توانا بنایا، اقتدار میں لایا گیا۔ پھر جنرل مشرف نے شریف خاندان کو ختم کرنے کے لئے چودھری برادران میدان میں اتارے۔ ان کی کارکردگی قابل ستائش نہیں تھی۔ عمران خان اور اس کی تحریک انصاف پر دست شفقت رکھا۔ جنرل باجوہ نے نوازشریف اور ان کی جماعت کو اقتدار سے الگ کر کے عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی کی اقتدار میں آنے کی راہیں آسان کیں۔ ان کی پست کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں 44 ماہ کے بعد چلتا کیا گیا اور ایک بار پھر شریف خاندان اقتدار میں آ گیا ہے۔
عدلیہ کے ذریعے ہی نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کو نااہل کیا گیا تھا نیب کے
ذریعے انہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا۔ ن لیگ کو ختم کرنے کی کاوشیں کی گئیں آج یہ سارا عمل ریورس ہوتا نظر آ رہا ہے۔ نیب کے دانت کھٹے کر دیئے گئے ہیں جھوٹے مقدمات ختم ہو رہے ہیں۔ مریم نواز کو ان کا پاسپورٹ بھی واپس مل چکا ہے۔ نوازشریف کی بھی بریت صاف نظر آ رہی ہے۔ بیان کردہ حقائق کے مطابق نوازشریف کی واپسی، عدلیہ کے ذریعے بریت (سزا معافی) اور پھر سیاست میں بھرپور کردار اب بہت دور کی بات نظر نہیں آ رہی ہے۔ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے؟ جو کچھ ہو رہا ہے سب سامنے ہے۔
تاریخ میں 1958 سے ایسے ہی ہو رہا ہے۔ بیوروکریسی، یونیفارم بیوروکریسی، فوجی جرنیل عوام کے حق حکمرانی پامال کرتے رہے ہیں، آئین شکنی ہوتی رہی ہے، طالع آزماؤں کو حواری بھی مل جاتے رہے ہیں، سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں انہیں کندھا دینے کے لئے بھی دستیاب ہوتے رہے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی تو جنرل مشرف کو دس دفعہ بھی صدر منتخب کرانے کا نعرہ لگاتے رہے ہیں۔ ایسا ہی کچھ جنرل ضیاء الحق کے لئے بھی کیا جاتا رہا ہے۔ ہماری سیاست، اگر اسے سیاست کہتے ہیں تو دائروں میں ہی گھوم رہی ہے، آبادی بڑھتی چلی جا رہی ہے، وسائل اس رفتار سے بڑھ نہیں پا رہے ہیں قومی معیشت میں استحکام نہیں ہے، انفرادی معیشت تباہی کا شکار ہے، خط غربت سے نیچے جانے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
پاکستان کا مشہور ترین لیڈر ہونے کا دعوے دار عمران خان عوامی جلسوں میں کبھی اسٹیبلشمنٹ کو چوکیدار کہہ کر، جانور کہہ کر للکارتا ہے لیکن چھپ چھپ کر ایوانِ صدر میں اسی کے ساتھ مفاہمت کی بات کرتا ہے۔ ان سے درخواست کرتا پایا گیا ہے کہ وہ اسے ایک بار پھر گود لے لیں۔ ہماری پاپولر لیڈرشپ کے کرتوت دیکھ لیں۔
جاری سیاسی معاملات ایسے ہی چل رہے ہیں جیسے چلتے رہے ہیں اس لئے ایک ہی جیسے معاملات سے مختلف نتائج حاصل ہونے کی امید عبث ہے ہاں نوازشریف ادوارِ حکمرانی میں تعمیروترقی کے کئی میگا پراجیکٹس مکمل ہوئے۔ پاکستان ایٹمی طاقت بنا، معاشی صورت حال قدرے بہتر تھی، بیوروکریسی اپنی اوقات میں رہی۔ اسلامی ممالک بالخصوص سعودی عرب وغیرہ کے ساتھ تعلقات بہتر رہے، مسئلہ افغانستان سے متعلق معاملات میں بھی پاکستان کے مفادات مقدم رہے۔ دہشت گردوں کے خلاف نیشنل ایکشن پروگرام کا اجرا ہوا۔ دہشت گردی پر قابو پا لیا گیا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ مکمل طور پر ختم ہو گئی۔ صوبے میں شہباز شریف نے ترقیاتی کاموں کے ریکارڈ قائم کئے۔ ترکی کے ساتھ نئے عزم اور حوصلہ کے ساتھ شراکت داری قائم کی گئی۔ سی پیک کے ذریعے چین کے ساتھ ہمالہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی دوستی کو فائدہ مندی کی شکل دی گئی۔ معاملات بہتری اور بہتری کی طرف چلنا شروع ہوئے ہی تھے کہ نوازشریف کے خلاف اسٹیبلشمنٹ نے ایک محاذ کھڑا کر دیا جس میں نیب، ایف آئی اے اور عدالتیں سب شریک کر لی گئیں۔ انہیں نااہل قرار دے کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ پارٹی کی قیادت کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ نوازشریف کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں کیا جا سکا انہیں وہ رقم ظاہر نہ کرنے پر نااہل قرار دیا گیا جو انہوں نے اپنے بیٹے سے وصول ہی نہیں کی ہاں بیٹے کی طرف سے اس رقم کی ادائیگی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ہمارے ہاں بوالعجبیوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو قیام پاکستان سے جاری ہے اسی کے باعث ملک ٹوٹ گیا۔ بنگالیوں نے ہم سے علیحدگی اختیار کر لی۔ آج وہ 5جی ٹیکنالوجی کی طرف جا رہے ہیں، ان کی برآمدات ہم سے زیادہ ہیں، ان کے زرمبادلہ کے ذخائر ہم سے زیادہ ہیں، وہ خوشحال قوم ہیں، ہم آئی ایم ایف سے 1.6 ارب ڈالر لینے کے لئے اپنی ہر شے قربان کرنے پر تیار رہتے ہیں۔ ہماری قومی غیرت نجانے کہاں چلی جاتی ہے ہم امریکیوں کے احکامات ماننے پر مجبور ہیں، ہم آزادانہ فیصلے کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا؟ کسی کو پتہ نہیں ہے۔ اس لئے ایسا ہی چلتا رہے گا۔ تبدیلی کا امکان کہیں بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔