اسلام کا آغاز اقرا سے ہوا اور نبی ﷺ نے خود کو معلم فرمایا۔ تعلیم یقینا انسان میں شعور پیدا کرتی ہے. تعلیم انسان کو اچھے برے کی تمیز سکھاتی ہے۔ جو بچے کو تعلیم سے بہرہ ور کرتا اور تعلیم کے ذریعے ایک معاشرتی حیوان سے اشرف المخلوقات تک پہنچاتا ہے اس کو انگلش میں ٹیچر اور اردو میں استاد کہتے ہیں۔ جس طرح سال بھر میں مختلف ایام منائے جاتے ہیں اسی طرح سال میں ایک بار استاد کا دن (ٹیچر ڈے) منایا جاتا ہے۔ ٹیچر ڈے پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد اساتذہ کی خدمات کا اعتراف کرنا اور ان کو خراج تحسین پیش کرنا ہوتا ہے۔یوم اساتذہ ان چند عالمی دنوں میں سے ایک ہے جسے دنیا کے مختلف ممالک مختلف تاریخوں میں مناتے ہیں مگر تمام ممالک میں ایک بات مشترک ہے کہ اساتذہ کا دن انتہائی خلوص، محبت اور عقیدت سے منایا جاتا ہے۔تمام ممالک میں اساتذہ کے دن کو خصوصی سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کر کے منایا جاتا ہے۔ اور اساتذہ کی خدمت میں پھولوں کے ساتھ ساتھ مختلف بیش قیمت تحائف بھی دیئے جاتے ہیں۔
پاکستان میں بھی اساتذہ کا عالمی دن 5 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔پاکستان کی طرح دوسرے ممالک میں بھی یوم اساتذہ منایا جاتا ہے۔ مسلم ممالک میں ترکی کے پہلے صدر مصطفی کمال اتاترک نے اساتذہ کی خدمات کے اعتراف میں 24 نومبر کو اساتذہ کے دن کے طور پر منانے کا آغاز کیا، جو آج تک جاری ہے۔ ملائشیا میں 16 مئی کو اساتذہ کے دن سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ایران میں بھی استاد کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ”روز معلم“ منایا جاتا ہے۔ روز معلم ہر سال 2 مئی کو منایا جاتا ہے۔
مسلمان کئی صدیوں تک علم و سائنس، فلسفہ میں استاد رہے ہیں اور دوسری قوموں نے ان سے استفادہ اٹھایا۔ خود یورپ میں اس جگہ پہنچنے سے پہلے عربی کا حصول لازم تھا تاکہ مسلمانوں کے علم سے اکتساب کیا جا سکے۔حضور اکرم ﷺ کا بحیثیت معلم دنیا کے لیے انمول کردارہے۔ ایک طرف تو استاد تاریخ کا دھارا بدل دیتا ہے تو دوسری طرف دنیاوی مفاد کے لیے پاکستان میں اساتذہ نے تعلیم جیسے مقدس شعبے کو کاروبار بنا لیا ہے۔ طالب علم ایک خاندان کا فرد ہی نہیں ہوتا بلکہ پوری قوم کی امیدوں اور امنگوں کا مظہر بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں اساتذہ کی بہترین تعلیم و تربیت ہی انہیں عملی زندگی میں نئے نئے راستے دکھا سکتی ہے۔ مگر قیام پاکستان کے بعد سے لے کرآج تک تعلیم کے شعبے کو ہر حکومت نے زبانی جمع خرچ کی حد تک رکھا ہے۔
تعلیم کے شعبے میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے خاطرخواہ ترقی کی ہے لیکن سرکاری تعلیمی اداروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ نجی شعبے کی تعلیم کے میدان میں ترقی نے تعلیم جیسے مذہبی فریضے کو بھی کاروبار بنا دیا ہے۔ غریب طبقے کے لوگ اپنے بچوں کو نجی شعبے کے تعلیمی اداروں میں داخلہ دلانے کی سکت نہیں رکھتے اوروہ معیاری تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ وہ ملک و قوم کے لیے کارہائے نمایاں نہیں ادا کر پاتے۔
تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد کے حوالے سے پاکستان بہت پیچھے ہے۔ اس ضمن میں حکومتی نااہلی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔پچھلے کئی سال سے تعلیم کے نام پر بڑا جوش و جذبہ دکھایا جارہا ہے۔ میڈیا میں بڑے بڑے اشتہارات دیے جارہے ہیں۔ سرکاری اور پیف کے اداروں میں بچوں کو مفت کتابیں اور مفت تعلیم دی جارہی ہیں۔پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو سکول میں داخل کرانے کا قانون بنایا جارہاہے مگر افسوس ہم ابھی بھی اصل منزل اور مقصد سے بہت دور ہیں۔سب سے پہلے اساتذہ کو آج کے دورمیں وہ مقام حاصل نہیں ہوتا جس کا وہ حقدار ہے۔ استاد کسی بھی شہر کا ہویا ملک کا اس کا پیشہ ٹیچنگ ہے۔ وہ ایک استاد ہے اور وہ قوم کا معمار ہے۔
آج ایک تعلیمی ادارے کا سربراہ17 سے 20 گریڈ تک کا ہوتا ہے جب کہ اس کے برعکس ایک پولیس کانسٹیبل تو لوگ خوف سے اس پولیس والے کو سلام کریں گے مگر استاد کونہیں۔ استاد کا مقام دنیا میں انمول ہستی کاہے۔ ماں باپ اولاد کو پیدا کرتے ہیں مگر ان کی اصل پرورش استا دکرتا ہے خواہ بچہ ہے یا بچی۔
پاکستان میں کوئی الیکشن ہو یا الیکشن کاکام، مردم شماری ہو یا خانہ شماری، پولیو کے قطرے ہوں یادیگر ملکی و قومی مہم ان سب میں استاد کی ڈیوٹی لگادی جاتی ہے۔ پاکستان میں اور بھی گورنمنٹ کے ادارے ہیں مگر ایسے کاموں میں حکومت کو صر ف استاد ہی فارغ نظر آتے ہیں؟اب معاشرے میں استاد کی حیثیت ایک نوکر بلکہ ”کمی‘ والی کردی گئی ہے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ بچوں کی حاضری سوفیصد خواہ کچھ بھی ہو لیکن بچے کو نہ ڈانٹ سکتے ہیں اور نہ مار۔ بچہ کام کرے نہ کرے استاد نے ہاتھ باندھے ان کا غلام بننا ہے۔ بچہ پرچے میں ”نصیبولال“کے گانے لکھے پرائمری استاد اس کو فیل نہیں کر سکتا۔پنجاب ایجوکیشن بچے کو پروموٹ کر دے گا لیکن استاد کی انکوائری ضرور ہو گی۔غیر حاضری پر نام خارج نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی استاد کسی بچے کوغلط کام سے روکنے کے لیے مارے گا تو اس کے خلاف ایف آئی آر تک درج کروانے کا حکم دے دیاہے۔ ملازمت سے فارغ کرنے کا حکم صادر فرما دیا ہے۔پی ایچ ڈی لوگوں کی مانیٹرنگ کے لیے میٹرک پاس ریٹائرڈ فوجی مسلط کیے گئے ہیں جن کی بات کو ارباب اختیار قرانی صحیفہ سمجھ کر اساتذہ کی تذلیل کرتے ہیں۔
اگر ایٹم بموں سے تباہ حال جاپان استادوں کی عزت ومقام کی وجہ سے سپر پاور بن سکتا ہے تو ٹیچر ڈے پر ہم بھی اپنی بقا اور ترقی کے لیے استاد کو اس حقیقی اور جائز مقام و عزت دینے کا عہد کریں ورنہ ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔