حکمرانی بلاشبہ ایسا وظیفہ ہے جس میں اقتدار و اختیار کے مزے لوٹے جا سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ ایسا ذمہ داری کا کام ہے۔ کہ یہاں ہر گام تنے ہوئے رسے پر چلنا پڑتا ہے اور اس کے لیے بڑے عزم، ہمت و حوصلے، مضبوط قوت ارادی اور پُختہ ایمان و یقین کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ہے بلکہ اپنے آپ کو ہر لمحے جوابدہی کے لیے تیار بھی رکھنا پڑتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ غیر ملکی سربراہانِ حکومت و مملکت کی طرف سے دیئے جانے والے قیمتی تحائف توشہ خانے میں پڑے ہوں اور آپ کا دل چاہے اور آپ اونے پونے داموں انہیں ہتھیا کر اپنی ذاتی ملکیت بنا لیں اور اگر کوئی سوال کرے تو یہ کہہ کر جواب دینے سے انکار کر دیا جائے کہ یہ خفیہ Classifideمعلومات ہیں جنہیں پبلک نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ آپ کے ترجمان اس بارے میں الٹی سیدھی توجیحات کرتے پھریں اور کوئی جواب بن نہ پڑے تو ماضی کے حکمرانوں کو برُا بھلا اور ساری خرابیوں کی جڑ کہنا شروع کر دیں۔
ہمارے ہاں آج کل ہی نہیں بلکہ کب سے حکمرانی کا یہی چلن بنا ہوا ہے لیکن پہلے اتنا ضرور تھا کہ ریاستِ مدینہ کا نمونہ اپنانے کی بات نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ کے دورِ خلافت کو بطورِ نمونہ اپنانے کے دعوے اور تذکرے ہوتے تھے۔ یہ جناب عمران خان کا دورِ حکمرانی ہے جس میں پاکستان میں تبدیلی لانے، ریاستِ مدینہ کو بطور رول ماڈل اپنانے اور خلفائے راشدین کے دور کو بطورِ نمونہ اختیار کرنے کے بلند بانگ دعوے ہی نہیں ہوتے چلے آ رہے ہیں بلکہ ہر جا و بیجا موقع پر وزیرِ اعظم عمران خان ریاست مدینہ کے تذکرے کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ ریاستِ مدینہ کا ماڈل اختیار کرنا تو دور کی بات کہ یہ اس دور کے حکمرانوں کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی ان کی زبانوں پر یہ تذکرہ جچتا ہے، اسی طرح خلیفہ راشد حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت کا یہ حوالہ کہ فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا رہے گا تو اس کی جوابدہی عمرؓ کے ذمہ ہوگی۔ اس کا تذکرہ بھی ہمارے حکمرانوں کے انداز، فکر و عمل سے ماورا ہی سمجھاجا سکتا ہے۔ لیکن بات بڑی سیدھی اور سادہ سی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اگر سچے دل سے چاہتی اور سمجھتی ہے کہ اس نے عام لوگوں کی بھلائی کے لیے کچھ کرکے دکھانا ہے اور پاکستان کوصحیح معنوں میں ایک جدید فلاحی ریاست میں تبدیل کرنا ہے تو اسے پھر بلند بانگ دعوے کرنے اور خالی خولی نعرے لگانے کی بجائے ممکن حد تک عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور صاحبانِ اقتدار و اختیار کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ وہ جو کہیں اس پر عمل کرکے دکھائیں۔ یہ نہیں کہ دعوے خلفائے راشدین کے انداز حکمرانی کے ہوں اور عمل اس کے بالکل الٹ ہو۔ اگلے دن فیڈرل بورڈ اسلام آباد کے زیراہتمام انٹرمیڈیٹ امتحان (Part II)میں پوزیشن ہولڈرز کی تقریبِ تقسیم انعامات میں شرکت کا موقع ملا کہ میں جس ادارے عمالہ فاؤنڈیشن سکول و کالج مصریال روڈراولپنڈی سے وابستہ ہوں اس کے ایک ہونہار طالب علم صہیب احمد کا نام بھی پوزیشن ہولڈرز میں شامل تھا۔ وفاقی وزیرِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت جناب شفقت محمود تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ انعامات کی تقسیم کے بعد ہال سے باہر نکلے تو محترم وزیر صاحب کی جھنڈے والی سرکاری گاڑی کھڑی تھی۔ بلٹ پروف ٹویوٹا شاید 2500ccبالکل نیا (Latest)ماڈل۔ عزت مآب وزیر کے زیرِ استعمال یہ گاڑی دیکھ کر میں کسی حد تک حیران رہ گیا کہ پچھلے دورِ حکومت میں مجھے اپنے محبی مکرم و محترم جناب عرفان صدیقی جو وزیرِ اعظم میاں
محمد نواز شریف کے مشیر (بدرجہ وزیر) کے عہدے پر فائز تھے کے پاس آنے جانے کے دوران وفاقی وزراء کے زیرِ استعمال سرکاری گاڑیوں کو گاہے گاہے دیکھنے کا اتفاق ہوتا رہتا تھا۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جناب شفقت محمود کے زیرِ استعمال گاڑی سابقہ دورِ حکومت میں وزرا ء کے زیرِ استعمال گاڑیوں کے مقابلے میں زیادہ بڑھیا (Superior) قرار دی جا سکتی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ وزراء کے زیرِ استعمال اتنی بڑھیا گاڑیاں کیوں ہیں؟ البتہ میں جب اس معاملے کو اس تناظر میں دیکھتا ہوں کہ جناب عمران خان کے وزیرِ اعظم کا حلف اُٹھانے کے بعد اس بات کو خوب اچھالا گیا کہ سابق وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف کے دور میں بہت سی قیمتی گاڑیاں در آمد کی گئیں اور یہ بھی کہا گیا کہ ان میں سے کئی گاڑیاں وزیرِ اعظم ہاؤس کے زیرِ استعمال رہیں۔ اس کے ساتھ وزیرِ اعظم ہاؤس سے متعلق ان گاڑیوں کی نمائش کی گئی اور ان کی نیلامی کے لیے بھی خوب شور بھی مچایا گیا۔ معاملہ اسی پر ختم نہ ہوا، ان گاڑیوں کے منگوانے کو بنیاد بنا کر وزیرِ اعظم میاں محمد نوازشریف اور ان کے پرنسپل سیکرٹری کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کی بنا پر نیب میں ریفرنس بھی دائر کیا گیا۔ اُس دور میں اگر نئی اور قیمتی گاڑیوں کا منگوانا جرم یا قصور تھا اور وزیرِ اعظم، وزراء یا اعلیٰ سرکاری افسران کی طرف سے انہیں زیراستعمال لانا اختیارات سے تجاوز تھا تو اس دور میں ان سے بھی بڑھیا اور قیمتی گاڑیوں کا منگوانا اور وزراء یا اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے استعمال میں دینا کہاں سے جائز اور مناسب ہو گیا۔ طرفہ تماشہ یہ کہ سینیٹ میں مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جناب عرفان صدیقی نے ایک سادہ سا سوال کیا کہ بتایا جائے کہ گزشتہ تین سال کے دوران کیبنٹ ڈویژن نے کون سی گاڑیاں خریدیں، ان پر کتنی رقم خرچ ہوئی اور وہ کس کے استعمال میں ہیں؟ جناب عرفان صدیقی کو اس سوال کا جواب دینے کے بجائے تحریری طور پر بتایا گیا ہے کہ چیئرمین سینیٹ نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے یہ سوال مسترد کر دیا ہے۔ جملہ معترضہ کے طور پر یہ تفصیل بیان کرنا پڑ گئی ورنہ کہنے کا مدعاصرف اتنا ہے کہ حکمرانوں کے لیے قول و فعل کے تضاد سے جہاں بچنا ضروری ہے وہاں خود قابلِ عمل نمونہ پیش کرنا بھی ضروری ہے۔
یہاں موجودہ دورِ حکومت میں عوام کو درپیش گونا گوں مسائل و مشکلات کا تذکرہ بے جا نہیں ہوگا کہ جن کی وجہ سے نچلی سطح سے لے کر اوپر کی سطح تک عوام الناس کی زندگیاں اجیرن ہو چکی ہیں۔ بلا شبہ ان کی بڑی وجہ حکمرانوں کی نا اہلی اور ناقص اندازِ حکمرانی ہے۔ یہاں جان لیوا مہنگائی، روزمرہ اشیائے صرف کی آسمان تک پہنچی ہوئی قیمتوں کے ساتھ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے روز عوام کی دسترس سے بڑھ کر اضافے کو لیا جائے تو بڑی آسانی کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ جناب عمران خان اور ان کی حکومت میں شامل وزراء اور دیگر اعلیٰ حکومتی ارکان خالی خولی نعرے بلند کرنے کے بجائے معاملات و مسائل کو صحیح تناظر میں دیکھ کر فیصلے کرتے تو عوام کو اس حد تک لوٹ مار اور ہوشربا ء مہنگائی کے شکنجے میں جکڑے ہونے کی نوبت نہ آتی۔ چینی کی قیمت 55روپے کلو سے 110روپے کلو ہو گئی، آٹا 35، 40روپے کلو سے 80روپے کلو ہو گیا، خوردنی تیل اور بناسپتی گھی کی قیمتیں پچھلے دور کے مقابلے میں دوگنی ہو گئیں، بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں دوگنا یا اس سے بھی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ اسی طرح دیگر اشیائے صرف جن میں دالیں، سبزیاں، پھل، کپڑے دھونے اور نہانے کے صابن، شیمپو اور دوسری اشیاء شامل ہیں اُن کی قیمتیں بھی اسی نسبت سے پہلے کے مقابلے میں دوگنا ہو چکی ہیں۔ ابھی یکم اکتوبر سے پیٹرول کی قیمت میں 4روپے فی لیٹر، مٹی کے تیل کی قیمت میں 7روپے فی لیٹر، ڈیزل کی قیمت میں سوا دو روپے فی لیٹر اور LPGکی قیمت میں 29روپے فی کلو اضافہ کر دیا گیا ہے۔ پیٹرول 127.7روپے فی لیٹر ہو چکا ہے تو ایل پی جی کے گھریلو سلنڈر کی قیمت 2400روپے سے بڑھ چکی ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر وزیرِ توانائی جناب حماد اظہر یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں گیس، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دیگر ممالک سے کم ہیں تو سوائے ان کی عقل کا ماتم کرنے کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ انہیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ دوسرے ممالک میں فی کس آمدنی کتنی ہے۔
حکومت قیمتوں میں اضافے اور ہوشربا مہنگائی کے حوالے سے کچھ بھی جواز پیش کرے لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ اس میں حکومت کی ناقص منصوبہ بندی، کابینہ کے کمیٹیوں کے غلط فیصلے، فیصلہ سازی میں تاخیر، بااثر اور مقتدر سیاسی افراد کو عوام کی جیبیں خالی کرنے کی اجازت دینااور اسی طرح کے دوسرے عوامل کا بڑا عمل دخل ہے۔ چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے لیے چینی کے کارخانہ داروں، چینی مافیاز اور آٹا مافیازکا جو کردار رہا ہے اُسے کون بھول سکتا ہے؟ جناب عمران خان صاحب سے اتنی گزارش کی جا سکتی ہے کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ عوام الناس سکھ کے ساتھ زندگی کے چند سانس گزار سکیں تو انہیں مخالفین کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کرنے کے بجائے عوام الناس کو درپیش مسائل و مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے ان کا حل ڈھونڈنا ہوگا۔