یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جس چیز کو عوام اپنے موافق نہیں سمجھتے وہی بار بار ان کے آگے آجاتی ہے یعنی لوگ مہنگائی کو ایک نظر بھی دیکھنا نہیں چاہتے مگر وہ گھوم پھر کر ان کی آنکھوں کے سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔
پیارے پاکستانیو! بس آپ نے گھبرانا نہیں حکمران جو بھی کہیں کرتے رہنا ہے۔ ان کے کسی فیصلے پر مشتعل نہیں ہونا۔ اپنے جذبات پر قابو رکھنا ہے کیونکہ قومیں ایسے ہی نہیں بنتیں انہیں قربانیاں دینا پڑتی ہیں، مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے، مسائل کے انبار کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر اگر وہ صبر و تحمل سے کام لیتی ہیں تو پھر ان کی زندگیاں آسان و سہل ہو جاتی ہیں۔ آسائشیں ان کے گرد رقصاں ہو جاتی ہیں لہٰذا اس وقت جو بھی مہنگائی، بیروزگاری اور غربت وغیرہ ہیں ان سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ کیا شعر ہے کہ
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
جی ہاں! یہ جو آج عوام کومصائب نے گھیر رکھا ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں انہیں کوئی ایک بڑا ریلیف ملنے والا ہے لہٰذا مہنگائی کی باد مخالف کی پروا کیے بغیر لوگوں کو آگے بڑھتے رہنا ہے۔ جاوید خیالوی مگر اس منطق سے اتفاق نہیں کرتا وہ کہتا ہے کہ موجودہ حکومت دھڑا دھڑ قرضہ لے رہی ہے اسے واپس کرنا ہے اور وہ کر بھی رہی ہے۔ اس سے عالمی مالیاتی اداروں کی قسطیں ادا کرنا مشکل ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ آنکھیں بند کیے عام استعمال کی اشیاء پر ٹیکس لگائے جا رہی ہے جس سے عوام کا کچومر نکل گیا ہے مگر حیرت ہے کہ ان کی جیبیں صاف کرنے والوں سے وہ کچھ نہیں برآمد کرا سکی اور نہ ہی بیرونی ممالک کے بینکوں میں پڑے کھربوں ڈالر واپس لانے میں کامیاب ہو سکی ہے لہٰذا آنے والی حکومت کو اس سے بھی زیادہ سخت فیصلے کرنا پڑیں گے اور پھر عوام اس سے بھی تنگ آ جائیں گے لہٰذا جب تک موجودہ نظام نہیں بدلا جاتا کوئی بھی حکمران عوام کو سہولتیں نہیں دے سکتا ایک طبقہ اشرافیہ ہی پر آسائش زندگی بسر کرے گا۔ غریب عوام اسی طرح روتے رہیں گے۔
پچھلی حکومتوں نے جو قرضے لیے ان کا استعمال غیر پیداواری منصوبوں پر ہوا صنعتوں کو زیادہ فروغ نہیں دیا گیا۔ بدعنوانی پر قابو پانے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے۔ مافیاز کو بھی نظر انداز کیا گیا جو عوامی مشکلات میں بتدریج اضافہ
کرتے چلے گئے۔ منصوبہ بند معیشت کا اہتمام نہیں کیاگیا بس ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں بنائی گئیں جو عارضی طور سے تو فائدہ پہنچاتیں مگر مستقلاً مسائل کا خاتمہ نہیں کر پائیں نتیجتاً صورت حال سب کے سامنے ہے مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اب گزشتہ ادوار کو ہی ہر مسئلے کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ یہ جو حکومت ہے اسے تین برس ہو چکے ہیں چوتھا برس شروع ہے مگر اس نے ایسا کوئی حل نہیں نکالا جو عام آدمی کو سکھ دیتا ہو۔ باتیں ہی کی جا رہی ہیں مگر کیا باتوں سے عوام کے بھوکے پیٹ بھرے جا سکتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ عوام کو وزیراعظم کی تقریروں سے کوئی غرض نہیں کہ وہ بغیر پرچی کے کرتے ہیں یا نہیں انہیں تو اپنے باورچی خانے سے لے کر روزگار تک سے سروکار ہے جو انتہائی مشکل میں ہیں۔
جاوید خیالوی کے خیالات اپنی جگہ ہم اکثر یہ عرض کرتے رہتے ہیں کہ حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ وہ عوامی مفاد کے پیش نظر عوامی حلقوں سے رابطہ کر کے حالات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے مزدور کسان تنظیموں سے مل کر مسائل کا حل ڈھونڈتے مگر انہوں نے ان سب کو کوئی اہمیت نہیں دی لہٰذا بے چینی اپنی حد عبور کر چکی ہے۔ اگر وزیراعظم برا نہ منائیں تو لوگوں کی غالب اکثریت انہیں جان چھوڑنے کا مطالبہ کر رہی ہے اس کے باوجود آئے روز ان پر گرانیوں کے ہتھوڑے برسائے جا رہے ہیں جبکہ ان کو ریلیف دینے کی ضرورت ہے نجانے غیر عوامی فیصلے کرانے میں ان کے گرد جمع حضرات میں سے کون ہیں جنہیں ذرہ بھر بھی غربت کی دلدل میں دھنسے لوگوں کا خیال نہیں دکھ اس بات کا بھی ہے کہ ہماری حزب اختلاف بھی گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے اب تک اس نے عوام کے مفاد سے متعلق کوئی جلسہ نہیں کیا اور کوئی جلوس نہیں نکالا۔ اسے صرف اور صرف اپنے اقتدار کی فکر ہے جس کے لیے وہ حکومت پر لفظوں کی گولہ باری کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ریلی بھی نکال لیتی ہے چھوٹا موٹا جلسہ بھی کر ڈالتی ہے۔ اب سنا ہے کہ اکتوبر میں کوئی بڑا جلسہ کرنے جا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے وہ دھرنے میں تبدیل ہو جائے مگر اس سے کیا ہو گا؟ حکومت کو اپنی مقررہ مدت پوری کرنی ہے ہاں البتہ عام انتخابات کی تیاری کے حوالے سے اسے کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ ابھی عوام میں یہ شعور پیدانہیں ہوا کہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ حکمران طبقے نے اب تک انہیں کیا دیا ہے کہ ان کو عالمی مالیاتی اداروں کامقروض بنا کر گویا اپاہج بنا دیا ہے۔ ادھر کوئی بچہ جنم لیتا ہے ادھر اس پر قرضہ سوار ہو جاتا ہے۔ چلیے قرضہ بھی لے لیا جاتا ہے مگر عوام کو آسائشیں اور سہولتیں کیوں میسر نہیں آتیں یہ سب بالادست طبقوں کے لیے ہی کیوں ہوتی ہیں۔
بہرحال کسی بھی حکمران سے یہ کوئی امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ لوگوں کو ایک ایسا نظام دے سکے گا جس میں ہر کسی کو انصاف، روٹی، کپڑا اور مکان بآسانی دستیاب ہوں گے۔ کوئی اس میں ملاوٹ نہیں کرے گا۔ کوئی ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری نہیں کر سکے گا۔ وہ نظام عوام نے خود لانا ہے ایسے نمائندوں کا انتخاب کرنا ہو گا جو عوام میں سے ہوں۔ مافیاز میں سے نہیں اور کمیشن خور، استحصالی گروہ سے بھی تعلق نہ رکھتے ہوں پھر سوال یہ ہے کہ عوام دوست نمائندوں کے لیے نظام انتخاب کو بھی تبدیل کرنا ہو گا جو یہ حکمران طبقات کبھی نہیں چاہیں گے وہ تو ای وی ایم طریقہ کار میں بھی کیڑے ڈال رہے ہیں حالانکہ اس کے تحت بھی وہی روایتی سیاسی لوگ ہی ایوانوں میں جائیں گے جو طویل عرصے سے غریب عوام کی گردنوں پر سوار ہیں لہٰذا ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں کوئی بھی عام شہری منتخب ہو سکے۔ اس کے بغیر عوامی فلاح ممکن نہیں لہٰذا عوام مطالبہ کریں کہ انہیں بھی ایوان میں بھیجا جائے تا کہ ان کے حقوق کو تحفظ حاصل ہو سکے۔ اگرچہ یہ کام مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔
ہو سکتا ہے انہیں ان سے کوئی مطالبہ نہ کرنا پڑے کیونکہ حکمرانوں کے اندرونی اختلافات بڑھتے چلے جا رہے ہیں یعنی ان میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیز ہو چکا ہے لہٰذا یہ اپنے ہاتھوں اس اذیت ناک نظام سے نجات حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ اب اس کی اخیر ہو چکی ہے ویسے بھی عوام پریشان نہ ہوں کیونکہ حکومت کا اب بھنگ سے تیل کشید کر کے برآمد کرنے کا پروگرام ہے اس کے لیے کلیام کا علاقہ منتخب کیا گیا ہے وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے اس کا افتتاح بھی کر دیا ہے لہٰذا آنے والے دنوں میں بھنگ عام ہوگی اور لوگ تفکرات سے چھٹکارا پانے کے لیے اس پر انحصار کرتے دکھائی دیں گے۔
حرف آخر یہ کہ حکومت کے چھوٹے چھوٹے منصوبے خوشحالی لانے میں کامیاب ہوجائیں گے لہٰذا وزیراعظم اسی لیے کہتے چلے آ رہے ہیں کہ گھبرانا نہیں وہ بنیادی طور سے عوام کے خیر خواہ ہیں یہ تو ان کو ”سٹیٹس کو“ کے محافظ لوگ مہنگائی کا مشورہ دیتے ہیں تا کہ جو خزانہ انہوں نے خالی کیا گیا ہے وہ بھر سکے اور بوقت ضرورت کام آئے لہٰذا اچھے دن آئیں گے یہ نظام بدلے گا یہ سماج بدلے گا کیونکہ وہی بات وقت ایک سا نہیں رہتا اور ایک جیسی کیفیت برقرار نہیں رہ سکتی۔