اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بینظیر قتل کیس میں ملزمان کی ضمانت منسوخی کیلئے دائر درخواست مسترد کر دی۔سپریم کورٹ میں بے نظیر قتل کیس کے ملزمان کی ضمانت کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ضمانتیں نہیں لی جا سکتیں۔ مشرف سب کچھ کنٹرول کر رہے تھے اور ضمانتیں کس بنیاد پر دی گئیں۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کی ٹیم بھی تحقیقات کر چکی ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہائیکورٹ کے اختیارات پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا سی پی او راولپنڈی بننے سے پہلے سعود عزیز آر پی او گوجرانوالہ تھا۔ بے نظیر بھٹو کے حفاظتی حصار کی ذمہ داری سی پی او کی تھی۔ سعود عزیز نے ایس ایس پی اور دیگر نفری بھجوا دی ۔ بے نظیر بھٹو کو پوائنٹ بلینک رینج سے گولی ماری گئی۔ بے نظیر بھٹو نے کراچی اترنے سے پہلے کچھ لوگوں کو نامزد کیا تھا اور پولیس افسران قتل کی سازش میں ملوث تھے۔ انہوں نے قتل کے شواہد ضائع کئے۔
یاد رہے کہ 27 دسمبر 2007 کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سربراہ اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے کے بعد خود کش حملہ اور فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں 20 دیگر افراد بھی جاں بحق ہوئے تھے۔
رواں برس 31 اگست کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بینظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ سنایا تھا جس کے مطابق 5 گرفتار ملزمان کو بری کر دیا گیا جبکہ سابق سٹی پولیس افسر (سی پی او) سعود عزیز اور سابق سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) خرم شہزاد کو مجرم قرار دے کر 17، 17 سال قید کی سزا اور مرکزی ملزم سابق صدر پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دے دیا گیا تھا۔