واشنگٹن: امریکہ میں صدارتی انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی ایک پیچیدہ اور مرحلہ وار عمل ہے، جس میں ڈالے گئے تمام ووٹوں کی مکمل تصدیق اور گنتی کی جاتی ہے۔ انتخابی دن پر ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کے بعد، دیگر ذرائع سے آنے والے ووٹ جیسے بذریعہ ڈاک، چیلنج کیے گئے ووٹ اور فوجی ووٹ بھی شمار کیے جاتے ہیں۔
سب سے پہلے انتخابی دن پر ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کی جاتی ہے۔ اس کے بعد، ڈاک کے ذریعے موصول ہونے والے بیلٹ (absentee ballots) اور وہ ووٹ جو مختلف وجوہات کی بنا پر چیلنج کیے گئے ہوتے ہیں، ان کی گنتی کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، فوجی بیلٹس اور بیرون ملک مقیم شہریوں کے ووٹ بھی شمار کیے جاتے ہیں۔
انتخابی عملہ ہر ووٹ کی تصدیق کرتا ہے تاکہ یہ یقین دہانی کی جا سکے کہ ہر بیلٹ فعال ووٹرز کے ذریعے ڈالا گیا ہے۔ اس دوران، یہ چیک کیا جاتا ہے کہ بیلٹ پر کوئی داغ یا خراب نشان تو نہیں ہے جس سے ووٹ کی شناخت میں مشکلات آئیں۔ اگر کوئی ووٹ مشکوک ہو تو اس پر دوبارہ جائزہ لیا جاتا ہے۔
ووٹوں کی گنتی کے دوران زیادہ تر بیلٹس کو الیکٹرانک سکینرز میں ڈالا جاتا ہے، جو فوری طور پر ووٹوں کے نتائج کو محفوظ کرتے ہیں۔ تاہم، کچھ ریاستوں میں تکنیکی مسائل یا تنازعات کے سبب، بیلٹس کی مینوئل گنتی بھی کی جاتی ہے تاکہ کسی بھی غلطی کو درست کیا جا سکے۔
امریکہ کی مختلف ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی کے عمل کے لیے الگ الگ قوانین ہیں، جن کے تحت یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کس کو گنتی کے عمل میں حصہ لینے کی اجازت ہے اور کس طرح عوام یا مبصرین کو اس عمل میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ ان قوانین کا مقصد انتخابی عمل کی شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔
گنتی کے تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد، انتخابی نتائج کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس دوران شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کیے جاتے ہیں اور نتائج کو عوامی طور پر فراہم کیا جاتا ہے تاکہ ہر شہری انتخابی عمل کے نتائج سے آگاہ ہو سکے۔
اس پورے عمل میں قانونی طور پر ہر ریاست کے اپنے طریقہ کار کے مطابق احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں تاکہ کسی بھی قسم کی دھاندلی یا گنتی کی غلطیوں سے بچا جا سکے اور انتخابی عمل کے نتائج کو درست، شفاف اور منصفانہ بنایا جا سکے۔