پنسلوینیا : دنیا کے امیر ترین کاروباری شخصیت ایلون مسک نے پنسلوینیا کی عدالت میں اپنے خلاف دائر مقدمہ جیت لیا ہے، جس کے بعد عدالت نے اُنہیں امریکی ووٹرز کو 10 لاکھ ڈالر دینے کی مہم جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔
یہ مہم مسک کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے شروع کی گئی تھی، جس کا مقصد ووٹرز کو ترغیب دینا اور اُنہیں سیاسی طور پر متحرک کرنا تھا۔
ایلون مسک نے گز شتہ ماہ ریاست پنسلوینیا میں ایک اجتماع کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ امریکی آئین کی پہلی اور دوسری ترمیم کی حمایت کرنے والے افراد میں سے روزانہ کسی ایک شخص کو 10 لاکھ ڈالر دیں گے۔ پہلی ترمیم میں آزادی اظہار کا حق اور دوسری ترمیم میں ہتھیار اٹھانے کا حق محفوظ ہے۔ مسک کی یہ پیشکش ایک آن لائن پٹیشن کے ذریعے کی جا رہی تھی، جسے اُن کی امریکا پولیٹیکل ایکشن کمیٹی (پی اے سی) نے تیار کیا تھا۔ اس پٹیشن کا مقصد ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت حاصل کرنا اور اُن کے حامیوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی ترغیب دینا تھا۔
ایلون مسک کی جانب سے ووٹرز کو نقد انعامات دینے کے فیصلے نے امریکہ میں قانونی تنازعہ کو جنم دیا تھا۔ سابق ریپبلیکن عہدیداروں اور امریکی محکمہ انصاف نے اس پر سوالات اٹھائے تھے، یہ کہتے ہوئے کہ ووٹرز کو کسی عمل کے بدلے رقم کی پیشکش امریکی انتخابی قوانین کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔
خصوصاً فلاڈلفیا کے پبلک پراسیکیوٹر لیری کرسنر (جو خود ڈیموکریٹ ہیں) نے ایلون مسک اور اُن کی تنظیم پی اے سی کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا، یہ الزام عائد کرتے ہوئے کہ اس طرح کی مہم انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ مزید برآں، امریکی وزارت انصاف نے بھی پی اے سی کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں انہیں خبردار کیا گیا کہ یہ انعامات وفاقی قوانین کی خلاف ورزی ہو سکتے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی مسک کی اس مہم پر تنقید کی تھی، اُن کا کہنا تھا کہ ایسی پیشکشیں غیر مناسب اور انتخابی عمل کو متاثر کرنے کی کوشش ہیں۔ بائیڈن کے مطابق، اس طرح کی رقم دینے کی پیشکش نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے، بلکہ اس سے انتخابی عمل میں دھاندلی کا بھی خطرہ ہے۔
پنسلوینیا کی عدالت نے تمام قانونی تحفظات کے باوجود ایلون مسک کی ووٹرز کو 10 لاکھ ڈالر دینے کی مہم کو قانونی قرار دیا اور مہم جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔