3 نومبر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کے ساتھیوں پر حملہ یقینا یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اور سیاہ دن ہے اختلاف رائے اپنی جگہ لیکن اختلاف رائے کا مطلب کسی سے دشمنی نہیں بلکہ اہل دانش تو اختلاف رائے کو انسانی معاشروں کا حسن قرار دیتے ہیں اور 18ویں صدی کے فرانسیسی مفکر والٹیئر نے کیا خوب کہا تھا ”میں تمہاری رائے سے اتفاق شاید کبھی نہ کروں لیکن تمہارے اظہار رائے کے حق کا مرتے دم تک دفاع کروں گا“۔ درحقیقت یہی سوچ کا فرق ہے پُرامن اور پُرتشدد معاشروں میں۔ مغرب نے سیاسی مذہبی سماجی اختلافات کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت جینا سیکھ لیا ہے اور اسی سوچ نے ان معاشروں کو اس کرہ ارض پر جنت کا نمونہ بنا رکھا ہے یہ نہیں کہ وہاں جرائم نہیں ہوتے بالکل جرائم بھی ہوتے ہیں اور جنسی استحصال کے واقعات ہم سے بھی زیادہ ہوتے ہیں اور اِکا دُکا دہشت گردی کا واقعہ بھی ہو جاتا ہے لیکن جس طرح ہمارے ملک میں مذہبی اور سیاسی اختلافات کو بنیاد بنا کر بحیثیت مجموعی ملک میں نفرت کے بیج بوئے گئے اس کی مثال دنیا میں کم ہی ملے گی بلکہ بھٹو صاحب کی پھانسی سے پہلے خود ہمارے ملک میں بھی ایک رواداری کا ماحول تھا اور معاشرے کی بنیادوں میں ابھی خون آلود نفرت کے زہریلے کانٹے نہیں بچھائے گئے تھے۔ اس نفرت کے اثرات کچھ کم ہوئے تھے کہ 2007 میں محترمہ بینظیر بھٹو کو بھرے مجمع میں قتل کر کے حقیقت میں ملکی بقا پر ایک کاری وار کیا گیا اور تین دن تک اس کے ردعمل میں جس طرح پورا ملک ہنگاموں کی نذر ہو کر جام رہا وہ تاریخ کا حصہ ہے یہ تو اچھا ہوا کہ زرداری صاحب نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر پاکستان کی سالمیت کو لاحق خطرات کا منہ موڑ دیا اور ملک دشمنوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
بڑا کرم ہوا اس پاک ذات کا کہ عمران خان کی زندگی محفوظ رہی اور ان کے ساتھیوں کی زندگی بھی محفوظ رہی گو کہ ایک بے گناہ اس فائرنگ کی زد میں آ کر اپنی زندگی کی بازی ہار گیا لیکن پھر بھی مقام شکر کہ ملک کسی بڑے حادثہ سے بچ گیا اس لیے کہ یہ موقع نہیں ہے کہ ملک اس وقت جس انارکی اور سیاسی افراتفری کا شکار ہے اس پر کسی کو مورد الزام ٹھہرائیں لیکن اس حقیقت سے انکار تو ممکن نہیں کہ ملک کی فضا سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اور ایسی صورت حال میں عمران خان ایسے مقبول سیاسی رہنما پر جان لیوا حملہ خدانخواستہ اگر کامیاب ہو جاتا تو سوچا جا سکتا ہے کہ ملک کی کیا حالت ہوتی اور ملکی سالمیت کو برقرار رکھنا مشکل ہو جانا تھا۔ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا ہم دفتر میں تھے ہمیں فوراً محترمہ شہید بینظیر بھٹو کے قتل اور اس کے بعد کے مناظر یاد آ گئے ہم نے دوستوں یاروں اور عزیزوں کو کالز کرنا شروع کر دیں کہ یہ افسوسناک واقع ہو گیا ہے لہٰذا جہاں ہیں اپنے گھروں کو جانے کی سوچیں ایسا نہ ہو کہ ہنگامے شروع ہو جائیں اور گھر جانا مشکل ہو جائے۔ سب کو کالز کر رہے تھے لیکن خود اطمنان سے دفتر بیٹھے رہے جب سب کو مطلع کر دیا تو اچانک خیال آیا کہ ہمیں بھی آٹھ دس کلو میٹر سفر طے کر کے گھر جانا ہے اور بے کار بھی ہیں ہم نے دفتر بند کیا اور گھر کے لیے روانہ ہو گئے اور خیریت سے گھر پہنچ گئے اور جس ہنگامہ آرائی کی توقع تھی اس حد تک حالات خراب نہیں ہوئے۔
تحریک انصاف کے قائد کے ساتھ جو سانحہ ہوا وہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے اور شکر ہے کہ خان صاحب خیریت سے ہیں اس موقع پر اچھا ہوتا کہ پاکستان کھپے جیسے مثبت رویے کا مظاہرہ کیا جاتا کوئی شک نہیں اور یہ فطری بات بھی ہے کہ عمران خان تحریک انصاف کی ریڈ لائن ہیں لیکن تحریک انصاف اور خود عمران خان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ یہ حملہ ان پر نہیں بلکہ درحقیقت پاکستان کی سالمیت اور جمہوریت پر ہوا ہے اور یہ حملہ اگر ان
کے سیاسی مخالفین نے کیا ہے تو ان سے بڑا احمق کوئی اور نہیں ہے اس لیے تحریک انصاف اور عمران خان ردعمل میں میاں شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور کسی سرکاری اہلکار کو اگر اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں تو یہ پاکستان کی سیاسی روایات کے تناظر میں کوئی عجیب بات نہیں ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس سے مسائل تو کسی طور حل نہیں ہوتے بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ عمران خان اور لانگ مارچ کی سکیورٹی کی ذمہ داری کلی طور پر پنجاب حکومت کی تھی اور اس کے بعد عمران خان کی اپنی ذاتی سکیورٹی کی تھی لیکن ہم چونکہ بلاوجہ الزام تراشی کے قائل نہیں ہیں اس لیے ہم کسی کو موردالزام نہیں ٹھہرائیں گے اس لیے کہ سکیورٹی کسی کی بھی ہو اور چاہے کسی بھی سطح کی ہو، نشانہ بنانے والے نشانہ بنا لیتے ہیں۔ گذشتہ صدی میں امریکہ ایسی سپر پاور کے صدر کینیڈی کو قتل کیا گیا اور سارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اس کے بعد رونالڈ ریگن کو ایک شخص نے قریب سے گولی مار کر شدید زخمی کر دیا اور سب دیکھتے رہ گئے اسی طرح ہندوستان کے وزیر اعظم راجیو گاندھی اور اس سے پہلے ان کی والدہ اندرا گاندھی کو نشانہ بنایا گیا لیکن وہاں چونکہ بلیم گیم کا رواج نہیں تھا اس لیے کسی پر بلاوجہ اور بغیر کسی ثبوت اور دلیل کے الزام تراشی نہیں کی گئی یہ تو غنیمت ہے کہ یہ واقعہ پنجاب میں ہوا کہ جہاں پر تحریک انصاف کی حکومت ہے اور خان صاحب کی حفاظت کی تمام تر ذمہ داری ان کی تھی لیکن اس کے باوجود بھی الزام تراشی کی جو صورت حال ہے وہ سب کے سامنے ہے لیکن سوچیں کہ اگر یہی واقعہ خدانخواستہ سندھ میں ہوا ہوتا تو اب تک وہ طوفان بپا ہونا تھا کہ الامان و الحفیظ لیکن اس بات سے قطع نظر کہ یہ کہاں پر ہوا اس کی سنگینی اپنی جگہ پر قائم ہے اور اس واقعہ کی تہہ تک صرف اس وجہ سے پہنچنا ضروری نہیں ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں پر فائرنگ کرنے والوں تک پہنچا جائے بلکہ اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ کسی نے پھر اس ملک کی سالمیت پر حملہ کیا ہے۔ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے اس حملہ کا پہلے سے بتا دیا تھا انھیں یقینا شامل تفتیش کرنا چاہئے۔ عمران خان سے نظریاتی اختلافات اپنی جگہ پر لیکن وہ اس ملک کے ایک انتہائی مقبول سیاسی رہنما ہے اور کسی اور کو اس بات کا احساس ہو یا نہ ہو لیکن کم از کم ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ کسی بھی ملک کی سیاسی قیادت ہی ملک کو متحد رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور سیاسی قیادت دو چار دنوں میں نہیں بنتی بلکہ برسوں کی تپسیا کے بعد جا کر کہیں کسی کو مقبول عوامی سیاسی قیادت کا رتبہ نصیب ہوتا ہے لیکن ہماری بدقسمتی کہ ہم نے قیام پاکستان کے فوری بعد قائد ملت لیاقت علی خان کے قتل سے جس قیادت کش طرز عمل کی شروعات کی اس میں کوئی فرق نہیں آیا۔ کاش اس موقع پر پی ٹی آئی کی قیادت 2007 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت جیسا رویہ اپناتی لیکن ان کے رویہ کے بعد یہی کہہ سکتے ہیں کہ
نہ ہم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کر لوں