منشیات کا آسیب

منشیات کا آسیب

 آج دفتر سے گھر آتے ہوئے ایک ایسے خوبصورت نوجوان کا نوحہ سن کر آیا ہوں جو صرف اس کا نوحہ نہیں بلکہ اس جیسے ہزاروں نوجوانوں کا نوحہ ہے۔ شہر لاہور میں تیزی سے اپنے پنجے گاڑنے والے منشیات فروشوں نے ان کی زندگیاں تباہ کر دیں، ان کے ہنستے بستے گھروں کو اجاڑ کے رکھ دیا۔ اس نوجوان کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ کالج میں دوران تعلیم، یہ ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا اور پھر تباہی و بر بادی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ اور بالآخر اس کا انجام کسی فٹ پاتھ، سڑک کے چوراہے یا قبرستان کی کے کسی کونے میں اکڑی ہوئی، لاوارش نعش کی صورت نکلے گا۔
قارئین کرام!!!یہ نوحہ صرف اس نوجوان کا ہی نہیں بلکہ ہمارا بھی ہے اور یہ ایک المیے کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ منشیات فروشی کے آسیب نے ہماری نوجوان نسل کو اتنی تیزی کے ساتھ اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ جس سے نکلنے کا کوئی رستہ دکھائی نہیں دیتا۔ ویسے تو شہر کے تمام چوراہے، گلی اور محلے اور تمام تعلیمی ادارے اس کا گڑھ بن چکے ہیں لیکن لاہور کی اچھرہ نہر پر کھلے عام اور بڑی دلیری کے ساتھ اس کے فروخت جاری ہے۔ کبھی پولیس یونیفارم میں، کبھی عام کپڑوں میں مردو خواتین یہاں لوگوں کو موت کی وادی کا مسافر بنا نے والے زہر کو فروخت کرتی نظر آتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق روزانہ کروڑوں روپے اس کالے دھندے میں جھونکے جا رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں بالخصوص ہاسٹل وارڈنز، اساتذہ اور منشیا ت فروشوں کے آلہ کار طالبعلم بھی بغیر کسی خوف و خطر اس گھناؤنے کام میں ملوث ہیں۔ 
اس کا انجام یہ ہے کہ معاشرے میں جہاں خاندانی نظام تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑا ہے وہاں جرائم میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو آ رہا ہے۔ میں نے گزشتہ دو سال میں شہر لاہور میں ہونے والے قتل و ڈکیتی میں ملوث لوگوں کا ڈیٹاچیک کیا تو حیرانگی ہوئی کہ اس میں 80فیصد وہ لوگ ہیں جو منشیات کی مختلف اقسام کے عادی ہیں۔ ان کو نشہ یا اس کے پیسے دے کر، قتل کرانا کوئی بڑی بات نہیں۔ ایسے ہی ڈکیتیوں میں ملوث لوگ بھی اپنے نشے کو پورا کر نے کے لئے اس رستے کے مسافر بن رہے ہیں۔ 
قارئین کرام!!!یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اس گھناؤنے دھندے میں ملوث لوگ بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ اس مافیاز کی سرپرستی کر نے والے پولیس اہلکار، صحافی و دیگر لوگ بھی ہمارے ہی گھروں میں رہتے ہیں۔ان کا ضمیر اس حد تک مردہ و بے حس ہو چکا کہ انہیں سوائے پیسے کے اور کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا۔ پیسہ ہی ان کا باپ، ان کا دین اور ان کا ایمان بن چکا ہے۔ لیکن یاد رہے! قدرت کا انتقام بھی بڑا سخت ہے۔ ایک وقت مقررہ تک تو ڈھیل میسر آتی ہے کہ شاید اپنی حرکتوں پر ندامت آجائے لیکن جب وقت آتا ہے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں بچتا اور لوگوں کی زندگیوں کو عذاب بنا نے والے لوگوں کی نسلیں عذاب کا مزہ چکھتی ہیں۔ 
قارئین محترم!!! جب سے اس نوجوان سے مل کے آیا، اب تک سونے کی لاکھ کوشش کرتا ہوں لیکن سکون میسر نہیں آتا۔ تھوڑی دیر کے لئے آنکھ لگتی ہے اور فوراً کھل جاتی ہے۔ اس وقت رات کے ساڑھے تین بج چکے۔ رات کا طویل حصہ گزر چکاہے۔ اللہ کے مقرب بندے رات کی اس تاریکی میں سجدوں کے ذریعے اپنے کریم رب کی عبادت میں مصروف ہیں۔ شاید یہ میری زندگی کا پہلا کالم ہے جو اس وقت لکھ رہا ہوں۔ سچ پوچھیں تو یہ لکھ نہیں رہا لکھوایا جا رہا ہے۔کچھ لمحے غنودگی کی حالت میں جانے پر لاشعور میں واقعات چل رہے ہیں۔ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کا فرض عین ہے کہ وہ ان منشیات فروشوں اور ان کے آلہ کاروں و سہولت کاروں کا خاتمہ بلکہ اب باتوں سے آگے نکل کر سخت ترین ایکشن کریں۔ کہا جاتا ہے کہ عقل والوں کے لیے نشانیاں کافی ہیں۔ ان کی تعیناتی کو لے کر پنجاب اور وفاق میں کئی مہینوں سے کھینچا تانی چل رہی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شاید قدرت نے انہیں پنجاب میں صرف اسی کام کے لیے روکا ہوا ہے۔ جناب غلام محمود ڈوگر!!! آپ کی ریٹائر منٹ میں کچھ ہی دیر باقی ہے۔ آپ نے بھی دوسرے افسران کی طرح ریٹائرڈ ہو جانا ہے۔ اگر آپ اپنے ذمے قدرت کی جانب سے لگائے گئے کام کو پورا کر گئے تو یقین جانئے آپ کا نام رہتی دنیا تک امر ہو جائے گا۔ منشیات فروشی کی اس لعنت کی وجہ سے ہزاروں خاندان جس کرب و دکھ میں ملوث ہیں، ان ہزاروں خاندانوں کی دعائیں آپ کا استقبال کریں گی۔ مجھے یقین ہے کہ قدرت نے یہ کام آپ کے ذمے لگایا ہے۔ باقی آپ پر منحصر ہے کہ آپ میری اس درخواست پر کیسے عمل کرتے ہیں۔ کاش! کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔

مصنف کے بارے میں