محمد الیاس مرزا ہمارے سکول فیلو، اولڈ راوین ہاکی کے کھلاڑی کلر ہولڈر اور مزاجاً گورے ہیں۔ سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو میں رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان آنے کے پروگرام بناتے رہتے ہیں ہمیں بتاتے بھی رہتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ انہیں گوروں کی سرزمین راس آ چکی ہے پاک سرزمین سے ان کا جذباتی سا رابطہ ضرور ہے لیکن جسمانی اور روحانی طور پر گوروں کے دیس کے اسیر ہیں۔ وہاں بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔
روزگار کے ساتھ ساتھ سیر و سیاحت بھی کرتے رہتے ہیں پنج تارہ ہوٹل کے جم میں ورزش اور تیراکی بھی کرتے ہیں۔ دوڑ بھی لگاتے ہیں مختلف اقوام کے لوگوں سے روابط بھی قائم ہیں جس میں امیر کبیر یہودی، با اثر سیاستدان، باخبر اور معروف صحافی بھی ان کے حلقہ یاراں میں شامل بھی ہیں۔
مرزا صاحب سیدھے سادے انسان ہیں، پاکستانیت اور دین اسلام کے شیدائی ہیں لیکن متاثر گوروں کے کلچر اور نظام سیاست و صحافت سے ہیں، ان کے نظام سیاست و ریاست کے گن گاتے رہتے ہیں۔ ہمیں بھی وہاں بیٹھ کر پاکستان میں جاری سیاست بارے اور یہاں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں ”مصدقہ اطلاعات“ دیتے رہتے ہیں جو عموماً درست ثابت ہوتی ہیں۔ غیب کا علم تو اللہ کے پاس ہے لیکن گورے ہمارے بارے میں ہم سے زیادہ جانتے ہیں ہمارے ہاں جاری معاملات کے بارے میں انہیں ہم سے زیادہ معلومات حاصل ہوتی ہیں کیونکہ وہ محنت کرتے ہیں۔ ذہانت کے ساتھ اور دیانت کے ساتھ۔
ولایت ہمیشہ سے ہی فیصلہ سازی اور سازش کا مرکز رہا ہے ہم کیونکہ برطانیہ سے آزاد ہوئے ہیں ہمارا نظام ریاست و سیاست انہی سے اخذ کردہ ہے ہماری بیورو کریسی، ہماری فوج، ہماری عدلیہ اور دیگر ریاستی و حکومتی ادارے اور ان سے منسلک اعلیٰ اہلکار کسی نہ کسی طریقے سے انہی کے ساتھ ان کے نظام کے ساتھ وابستہ رہے ہیں اس لیے وہ ہمارے ماضی و حال کے بارے میں بہتر طور پر باخبر ہوتے ہیں .
ہمارے مستقبل کے واقعات کی بھی انہیں ہم سے زیادہ خبر ہوتی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ 1977ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف پاکستان نیشنل الائنس کی احتجاجی تحریک چل رہی تھی تو بی بی سی کا ایک نمائندہ مارک ٹیلی یہاں بہت مشہور ہوا تھا۔ اپوزیشن کا ابھی مظاہرہ جاری ہوتا تھا ہم ابھی واپس گھر نہیں پہنچتے تھے کہ بی بی سی سے مارک ٹیلی کی ہمارے مظاہرے کی رپورٹ نشر ہو رہی ہوتی تھی اور ایسے لگتا تھا کہ جیسے کوئی مظاہرے کا آنکھوں دیکھا حال بتا رہا ہو۔
ہم قومی اتحاد کی تحریک سے متعلق معلومات کے لیے بی بی سی پر انحصار کرتے تھے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بی بی سی اپوزیشن کے ماؤتھ آرگن کا کردار ادا کر رہا تھا تو غلط نہیں ہو گا، اس وقت ریڈیو اور بی بی سی ریڈیو ابلاغ عامہ کا سب سے موثر ذریعہ ہوتا ہے۔
پاکستان کے جاری حالات کے حوالے سے ولایت آج بھی اہمیت کا حامل ہے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور پاکستان کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف بھی وہیں قیام پذیر ہیں جو ہماری سیاست کے ایک اہم بلکہ بہت ہی اہم فیصلہ ساز ہیں۔
فوری الیکشن کے مطالبے کے پورا نہ ہو سکنے کے حوالے سے عمران خان وضاحت سے کہہ چکے ہیں کہ کیونکہ نواز شریف فوری الیکشن کے لیے رضا مند نہیں ہیں اس لیے ان کا مطالبہ پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ گویا پاکستان کی جاری سیاست میں نواز شریف آج بھی فیصلہ کن حیثیت کے حامل ہیں اور وہ ولایت ہی میں تشریف فرما ہیں۔
مرزا صاحب پکے اور سچے پاکستانی بھی ہیں اور اچھے مسلمان بھی اور گوروں کے کلچر اور سیاست کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ شراب اور مخلوط معاشرتی زندگی کی برائیوں کے سوا اسے ریاست مدینہ کی طرح فلاحی ریاست قرار دیتے ہیں وہ کیونکہ اس معاشرے میں گندھے ہوئے ہیں جڑے ہوئے ہیں باخبر اور بااثر لوگوں سے روابط بھی رکھتے ہیں اس لیے انہیں پاکستان کے بارے میں مصدقہ اطلاعات ملتی رہتی ہیں جو وہ میرے ساتھ شیئر کرتے رہتے ہیں گزرے سال 2021ء میں جب عمران خان کی گڈی چڑھی ہوئی تھی بلکہ آسمان پر لگی ہوئی۔
عدلیہ، انتظامیہ اور ریاست سب ایک صفحے پر تھے اور عمران خان برملا اور اس صفحے اور اس صفحے پر موجود تمام اکابرین کے بارے میں دودھ شہد سے دھلی زبان سے تعریفیں کیا کرتے تھے اور اپوزیشن جوتوں میں دال بانٹ رہی تھی۔ آصف علی زرداری ان سے مل کر کبھی حکومتی امیدوار (حفیظ شیخ) کو ہرا کر داد وصول کرتے تھے اور کبھی چیئرمین سینٹ کو جتوا کر اپنا چمتکار دکھا رہے تھے۔ شریف خاندان اور ان کے حواری نیب اور ایف آئی اے کی گرداب میں پھنسے ہوئے تھے تو مرزا صاحب جاری نظام کے بدلے جانے اور شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے فیصلے کے متعلق آگاہ کرتے رہتے تھے۔
مرزا صاحب نے انہی دنوں پاکستان، امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب کے انٹیلی جنس اداروں کے بڑوں کی نواز شریف کے ساتھ ملاقاتوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا اور پھر ان ملاقاتوں کے فیصلوں بارے بھی بتایا۔ مرزا صاحب ہمیں آرمی چیف کی نواز شریف کے ساتھ فیصلہ کن ملاقات بارے بھی بتا چکے ہیں میرا کیونکہ کسی صحافتی ادارے کے ساتھ بطور رپورٹر تعلق نہیں ہے وگرنہ میں ایسی مصدقہ خبروں کے ذریعے صحافتی میدان میں ہلچل مچا سکتا تھا۔ کالم نویسی میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔
بہرحال مرزا صاحب چند مہینوں سے خبردار کر رہے ہیں کہ نظام لپیٹا جا رہا ہے۔ شہباز شریف حکومت کے بارے میں بھی فیصلہ ہو چکا ہے جاری نظام چلتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ لانگ مارچ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ لانگ مارچ میں آنے والا حالیہ موڑ (عمران خان پر قاتلانہ حملہ) اسی سلسلے میں ایک کڑی نظر آ رہی ہے۔ لانگ مارچ بلا شبہ لا اینڈ آرڈر کی سنگین صورتحال پیدا کرنے جا رہا تھا۔
عمران خان لانگ مارچ کو اسلام آباد لیجا کر سرکار کو مکمل طور پر مفلوج کرنے کی علانیہ پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں انہیں معلوم ہے اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ حکومت الیکشن ان کے مطالبے پر ہرگز نہیں کرائے گی تو پھر فوری الیکشن کا مطالبہ لے کر لانگ مارچ اسلام آباد پر چڑھائی اور اسلحہ کے ساتھ بندے لانے کی باتیں معاملات بگاڑنے کی حکمت عملی کا اظہار ہیں۔ عمران خان اسی حکمت عملی پر بڑی یکسوئی کے ساتھ عمل پیرا ہیں۔ قاتلانہ حملے کے بعد عمران خان کی طرف سے اسد عمر نے شہباز شریف، رانا ثنا اللہ اور ایک قومی ادارے کے سینئر اہلکار پر اپنے قتل کی ایف آئی آر درج کرانے کا اعلان کیا، جو جاری مخدوش صورتحال کو مزید مخدوش بنانے کی شعوری کاوش ہے۔ مرزا صاحب کی بات کہ ”نظام لپیٹا جا رہا ہے“ درست ہو سکتی ہے۔
ویسے کچھ تجزیہ نگار اور باخبر صحافی ”بوٹوں کی چاپ“ سننے کی باتیں بھی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ حالات ایسے ہی ہیں۔ اللہ کرے مرزا صاحب کی نظام لپیٹے جانے کی بات درست ثابت نہ ہو۔