پشاور:حکومت اورکالعدم تحریک طالبان ( ٹی ٹی پی ) کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پاگیا ۔ عارضی جنگ بندی معاہدے کے لئے کئی ہفتوں سے مذاکرات جاری تھے ۔
تفصیلات کے مطابق حکومت اور کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی ) کے درمیان بات چیت نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہے جس کے نتیجے میں حکومت اور ٹی ٹی پی عارضی جنگ بندی پر متفق ہوگئے ہیں ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان کے جنوب مغربی صوبے خوست میں تقریباً دو ہفتوں سے دونوں فریقین کے درمیان بات چیت جاری تھی۔ دونوں فریقین ملک بھر میں جنگ بندی پر متفق ہوگئے ۔
ذرائع نے کہا ہے کہ جنگ بندی کا اعلان ٹی ٹی پی کی طرف سے کچھ جنگجوؤں کی رہائی سے مشروط ہے ۔فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ پاکستان کی حراست میں موجود کتنے عسکریت پسندوں کو رہا کردیا جائے گا البتہ ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کی تعداد 2 درجن سے زیادہ نہیں۔تاہم ٹی ٹی پی کے کارکنوں کی جب رہائی عمل میں آئے گی تو جنگ بندی کا اعلان بھی کردیا جائے گا ۔
ذرائع کے مطابق عارضی طور پر کی جانے والی ایک ماہ کی جنگ بندی میں توسیع اس بات پر منحصر ہے کہ مذاکرات کس طرح آگے بڑھتے ہیں۔ افغانستان کی طالبان حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اوروہ ہی دونوں فریقین کو آمنے سامنے بات چیت کے لیے ایک چھت تلے لے کر آئے۔
دونوں فریقین میں مذاکرات براہِ راست سینیئر افسران اور ٹی ٹی پی کی سینیئر قیادت کے درمیان ہوئے، جس میں ٹی ٹی پی کے تمام گروہ شامل تھے، اس ضمن میں بہت سی تجاویز بھی سامنے رکھی گئیں ۔
یاد رہے کہ ایک ترک نیوز چینل کو گزشتہ ماہ انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ ان کی حکومت ٹی ٹی پی سے مذاکرات کررہی ہے تا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور معافی کے بدلے میں صلح کر کے عام شہریوں کی طرح زندگی گزار سکیں۔
تاہم ٹی ٹی پی نے عمران خان کی معافی کی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا اور اس بات پر اصرار کیا تھا کہ ان کی جدوجہد پاکستان میں شریعت کے نفاذ کے لیے ہے۔
پاکستانی سیکیورٹی حکام ملک میں حملوں میں اضافے کا حوالے دیتے ہوئے افغان طالبان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اپنے بین الاقوامی وعدوں کے مطابق اپنی سرزمین پر ٹی ٹی پی کے اڈے بند کر دیں۔
ذرائع کے مطابق کچھ حکومتی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ جہاں ٹی ٹی پی کے کچھ معمولی جنگجو اور دیگر افراد لڑائی اور جلا وطنی میں رہ کر تھک چکے ہیں اور معافی کی پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں وہیں کچھ عسکری رہنما بشمول ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور لی اور جماعت الاحرار کے رہنما عمر خالد خراسانی ’شدید مشکل‘ ثابت ہوئے اور بات چیت کی مزاحمت کرتے رہے، تاہم اب سب مشاورت میں ہیں۔
واضح رہے کہ ٹی ٹی پی نے ابھی تک بات چیت یا دونوں فریقوں کے درمیان طے پانے والی عارضی مفاہمت کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے ۔