نئی دہلی : بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی حکومت کے 42 فیصد وزرا پرقتل ، ریپ ، ڈکیتی کے مقدمات، 33 مرکزی ،35ریاستی وزرا کامجرمانہ ریکارڈ، 4 مرکزی وزرا کو قتل کے مقدمات کا سامنا ،سنگین مقدمات میں بی جے پی 83 کیساتھ پہلے، کانگریس 47اراکین کیساتھ دوسرے نمبرپر ،2019کی لوک سبھا میں 233اراکین اورنریندر مودی پر بھی سنگینالزامات اور مقدمات ہیں۔
بھارت میں اس وقت درجنوں وفاقی اور ریاستی وزر اسمیت سیکڑوں اراکین پارلیمنٹ کے خلاف سنگین جرائم کے مقدمات درج ہیں۔ایسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کی ایک رپورٹ کےمطابق مودی حکومت کے 42فی صد وزرا پر فوجداری مقدمات ہیں۔
مرکزی کابینہ کے کل78 میں سے33 وزرا کے خلاف قتل،ڈکیتی جیسے سنگین کیسز ہیں،ریاستی اسمبلیوں کے35وزرا کے خلاف سنگین جرائم کے مقدمات درج ہیں،2019کی لوک سبھا کے50فی صد ممبران مجرمانہ ریکارڈ کے حامل ہیں،بھارتی ایوان زیریں اورریاستی ایوانوں کے موجودہ363ارکان پر سنگین مقدمات ہیں۔
جرائم کی تاریخ کے حامل 363میں 296ریاستی اسمبلیوں کے اراکین ہیں،لوک سبھاکے24 اراکین کے خلاف43 اور ریاستی اسمبلیوں کے111اراکین کے خلاف315سنگین نوعیت کے کیسز گزشتہ دس سال سے زائد عرصے سے التوا کا شکار ہیں۔
اراکین کے خلاف سنگین نوعیت کے درج جرائم میں قتل،ریپ،ڈکیتی،اغوا،خواتین کے خلاف تشدد، رشوت،کرپشن،منی لانڈرنگ شامل ہے،2009کے بعد مجرمانہ ریکارڈکے حامل اراکین میں 44فی صد اضافہ ہوا ہے،لوک سبھامیں صرف 4عشاریہ7فی صد اراکین شفاف ریکارڈ رکھتے ہیں۔
2020کی بہاراسمبلی اس حوالے سے سرفہرست ہے جس کے54اراکین کے خلاف مقدمات درج ہیں، بی جے پی83 کے ساتھ سرفہرست، کانگریس 47 اراکین کے ساتھ دوسرے نمبرپر ہے۔
ایسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کی رپورٹ کیمطابق چار مرکزی وزرا پرقتل کے مقدمات ہیں جن میں جان برلہ، نتیش پریمنک، پنکج چوہدری، وی مرلی دھرن شامل ہیں۔2019کی لوک سبھا میں 233اراکین،2014 میں 185،اور2009میں 162اراکین مجرمانہ ریکار ڈ کے حامل تھے۔
2019سے قبل بھارت کے 1581ارکان پارلیمنٹ کے خلاف قتل،کرپشن،بدعنوانی جیسے سنگین مقدمات تھے، تاہم وہ اسمبلیوں اور اپنے عہدوں پر موجو د رہے،حتیٰ کہ وزیر اعظم مودی کے خلاف سنگین مقدمات درج ہیں۔
مودی کی پہلی حکومت میں 31فی صد وزرا کے خلاف مجرمانہ مقدمات درج تھے۔نریندر مودی کی کابینہ کے 78 یونین وزراء میں 24ورزا کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات درج تھے۔یہاں تک کہ بھارت کی ریاستی اسمبلیوں میں بھی وزرا کی بھاری تعداد کے خلاف مجرمانہ مقدمات تھے، مجموعی طور پر620ریاستی وزرا میں سے201وزرا کے خلاف مختلف تھانو ں میں مقدمات درج تھے۔
سات وزرا کے خلاف قتل اور چھ وزرا کے خلاف تشدد سے متعلق جب کہ لوک سبھا کے ارکان کی تعداد542ہے جن میں 112کے خلاف اغوا،قتل، خواتین کے خلاف جرائم جیسے مقدمات درج ہیں۔ دوسری طرف بھارتی قانون میں کسی بھی سیاستدان کی نااہلی صرف چھ سال کے لئے ہے تاحیات نہیں،یعنی کوئی بھی سیاستدان دو یا دوسال سے زائد سزا ہونے کی صورت میں سزا کی مدت پوری ہونے یا جیل سے رہائی کے چھ سال بعدوہ دوبارہ الیکشن لڑسکتا ہے۔
بھارتی الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی رکن کی نااہلیت کی مدت کو ختم یا کم کرسکتا ہے۔ جولائی 2013میں بھارتی سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ایسے ارکان پارلیمنٹ یا ایم ایل ایز جن پر سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں،انہیں عدالت کی طرف سے دو یا دو سے زیادہ سالوں کی جیل کی سزا سنا دی گئی ہے تو وہ فوری طور پر اپنے عوامی عہدوں سے نااہل ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے عوامی نمائندگی ایکٹ1951کے سیکشن 8فور کو معطل کردیا جس میں یہ شق ارکان پارلیمنٹ کی فوری نااہلی کو تحفظ دیتی ہے اگر اس نے اعلیٰ عدالت میں اپیل کردی ہو۔ کرپشن کے الزام میں تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جے لیلیتا جو اب دنیا میں نہیں رہی انہیں جیل جانا پڑا۔
وہ پہلی وزیر اعلیٰ تھیں جنہیں کرپشن پر جانا پڑا، انہوں نے صرف نصف ماہ بھی جیل میں گزارا کہ سپریم کورٹ نے انہیں ضمانت پر رہا کردیا اور ان کی سزا معطل کردی۔بی جے پی کے صدر پرسنگین مقدمات ہیں۔
تلنگنا ریاست سے ایم ایل اے اکبر الدین اویسی پر کئی مقدمات ہیں۔راجیہ سبھا کے رکن کروناندہی کی بیٹی ٹوجی اسپکٹرم اسکینڈل کی مرکزی ملزم ہے،انہیں سی بی آئی نے گرفتار کرکے تہاڑ جیل بھیجا اس نے چھ ماہ قید کاٹی سریش کالمدی پونے سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ہے ان پر کامن ویلتھ گیمز اسکینڈل جو ستر ہزار کروڑ روپے کا اس میں ملوث ہیں،انہیں دس ماہ کی جیل ہوئی تاہم وہ ضمانت پرہیں۔بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف کئی مقدمات درج ہیں۔
بھارتی ریاست گجرات میں 2002میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کا الزام براہ راست اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مود ی پر لگایا گیا اور ان کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے جن میں ذکیہ جعفری کیس مشہور ہے حال ہی ہائیکورٹ نے مودی کو کلین چٹ دی تاہم یہ کیس ابھی تک مود ی کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔
ریاست گجرات میں 2002ء میں فرقہ وارانہ فسادات اس وقت شروع ہوئے جب گودھرا ریل آتشزدگی سے 59 انتہاپسند ہندو ہلاک ہو گئے۔ الزام مسلمانوں پر لگایا گیا، اور مسلمانوں کے خلاف یہ فسادات گجرات کی ریاستی حکومت کی درپردہ اجازت پر کیے گئے۔