اسلام آباد: فیض آباد دھرنہ انکوائری کمیشن کی جانب سے رپورٹ اتوار کے روز بذریعہ اٹارنی جنرل آفس سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف کی اجازت سے بطور ثالث کردار ادا کیا، جبکہ انکوائری کمیشن کو کسی سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
انکوائری کمیشن کی ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بحران الیکشن ایکٹ کے ایک ڈیکلیریشن میں ترمیم سے پیدا ہوا،مصطفیٰ ایمپیکس کیس کی روشنی میں وزیر اعظم اور وزرا کے اختیارات واضح نہ ہونے کی بھی نشاندہی کی گئی۔
انکوائری کمیشن نے 33 گواہان کے بیانات کی روشنی میں رپورٹ تیار کی ہے اور رپورٹ میں نتائج اخذ کرنے کے ساتھ 33 سفارشات بھی پیش کی ہیں۔
خیال رہے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ پیر کے روز فیض آباد دھرنہ نظر ثانی کیس کی سماعت کرے گا۔
واضح رہے کہ 16 اپریل کو تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے 2017 کے دھرنے کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے فیض آباد دھرنا کمیشن نے اپنی رپورٹ وفاقی حکومت کو بھجوا دی تھی جس میں دیگر چیزوں کے علاوہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کام کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قانون سازی اور قواعد و ضوابط کا مسودہ تیار کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
رواں سال جنوری کے تیسرے ہفتے میں انکوائری کمیشن نے رپورٹ فائنل کر کے سپریم کورٹ میں جمع کرانی تھی، وفاقی حکومت نے مقرر وقت میں توسیع کے لیے سپریم کورٹ سے براہ راست رجوع کیا تھا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کی دی گئی تاریخ پر فیض آباد کمیشن رپورٹ کو حتمی شکل نہیں دے سکتا، انکوائری کمیشن کی مدت میں توسیع کی جائے۔
22 جنوری کو سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کو رپورٹ جمع کرانے کے لیے مزید ایک ماہ کی مہلت دے دی تھی۔