غزہ کی تعمیر نو :ٹرمپ کا منصوبہ مسترد ، عرب ممالک نےغزہ کی تعمیر نو کیلئے مصری پلان منظور کرلیا

غزہ کی تعمیر نو :ٹرمپ کا منصوبہ مسترد ، عرب ممالک نےغزہ کی تعمیر نو کیلئے مصری پلان منظور کرلیا

قاہرہ : عرب ممالک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے اور فلسطینیوں کی بے دخلی کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے مصر کے متبادل منصوبے کی حمایت کی ہے۔

منگل کو قاہرہ میں ہونے والے غیر معمولی اجلاس میں مصر، سعودی عرب، قطر، اردن، شام اور دیگر عرب ممالک کے رہنماؤں نے شرکت کی، ساتھ ہی اقوام متحدہ کے سربراہ، یورپی یونین کے صدر اور اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل بھی اس اجلاس کا حصہ بنے۔اجلاس کا مقصد امریکی صدر کے غزہ پر قبضے اور فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے منصوبے کے خلاف مشترکہ عرب مؤقف اپنانا تھا۔ اجلاس میں غزہ کی تعمیر نو اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر غور کیا گیا۔

مصر نے امریکی منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک متبادل منصوبہ پیش کیا۔ مصر کے 53 ارب ڈالر کے مجوزہ 5 سالہ منصوبے میں لاکھوں مکانات کی تعمیر، تجارتی بندرگاہ اور ائیرپورٹ کی تعمیر شامل ہے، جبکہ فلسطینی علاقوں میں انتخابات اور دو ریاستی حل کے لیے اقدامات بھی اس منصوبے کا حصہ ہیں۔

عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیط نے اجلاس کے اختتام پر اعلان کیا کہ مصر کا منصوبہ اب ایک عرب منصوبہ بن چکا ہے۔ انہوں نے ٹرمپ کے منصوبے کا براہ راست ذکر کیے بغیر یہ کہا کہ عرب مؤقف یہ ہے کہ فلسطینیوں کی بے دخلی، چاہے وہ رضاکارانہ ہو یا جبری، ناقابل قبول ہے۔

مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے اجلاس میں کہا کہ عرب رہنماؤں نے غزہ کی جنگ سے تباہ حال سرزمین کی تعمیر نو کے لیے مصر کے منصوبے کی حمایت کی ہے، جس کے تحت فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر رہنے کی اجازت دی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مصر نے فلسطینیوں کے ساتھ مل کر ایک انتظامی کمیٹی تشکیل دی ہے جو غزہ کے امور کو چلائے گی اور انسانی امداد کی نگرانی کرے گی، جب تک فلسطینی اتھارٹی دوبارہ کنٹرول نہ سنبھال لے۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے اجلاس میں مطالبہ کیا کہ غزہ پٹی کا مکمل انتظام فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کیا جائے۔ یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر امریکا کا قبضہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ امریکا غزہ کی پٹی پر قبضہ کرے گا تاکہ اس علاقے میں استحکام لایا جا سکے اور ہزاروں ملازمتیں پیدا کی جا سکیں۔ ٹرمپ کے اس اعلان پر اقوام متحدہ اور دنیا کے کئی ممالک نے فلسطینیوں کی بے دخلی کی مخالفت کی اور دو ریاستی حل پر زور دیا۔

مصنف کے بارے میں