پاکستان کی سیاسی تاریخ میں منتخب پارلیمانی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں چلتی رہی ہیں، تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح تمام تر اخلاقی اور معاشرتی قدروں کو پس پردہ چھوڑ کر عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کیلئے ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے ایم این ایز کو پیسوں کے ذریعے خریدا جاتا رہا ہے۔ اکتوبر 1957 اس وقت کے صدر اسکندر مرزا اور وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کے درمیان اختلافات اس حد تک بڑھے کہ انھیں عہدہ چھوڑنا پڑا۔اسکندر مرزا نے آئی آئی چندریگر کو وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری دی، مگروہ اس کرسی پر صرف 55دن ہی بیٹھ سکے تھے کہ ان کے اتحادیوں اورخود صدر کے درمیان اختلافات کے باعث تحریک عدم اعتماد لانے کافیصلہ ہوااورآئی آئی چندریگر نے استعفیٰ دے دیا۔1989ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو 10ماہ کاہی عرصہ گزرا تھا کہ انکے خلاف قومی اسمبلی میں26اکتوبر 1989ء کو اپوزیشن کی طرف سے عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی گئی، لیکن 12ووٹوں سے پیپلزپارٹی کی حکومت بچ گئی۔اگست 2006 کو وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمان کی عدم اعتماد کی تحریک 136ووٹ کے مقابلہ میں 201ووٹ سے ناکام ہوئی۔
آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کی جا سکتی ہے، اورآخری شق میں درج ہے کہ مجموعی اکثریت کو 172 ووٹوں سے منظور کر لیا جائے تو وزیر اعظم عہدے پر فائز نہیں رہے گا۔قومی اسمبلی میں حکومتی جماعت پی ٹی آئی کو اتحادیوں سمیت178اراکین کی حمایت حاصل ہے،ان میں خود پاکستان تحریک انصاف کے 155 اراکین، ایم کیو ایم سات، بی اے پی پانچ، مسلم لیگ ق پانچ، جی ڈی اے تین اور عوامی مسلم لیگ کے ایک رکن حکومتی اتحاد کاحصہ ہیں۔ دوسری جانب حزب اختلاف کے کل اراکین کی تعداد 162 ہے۔ان میں اپوزیشن کی جماعت مسلم لیگ ن 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 57اراکین، متحدہ مجلس عمل پندرہ، بی این پی چار، عوامی نیشنل پارٹی ایک اوردو آزاد اراکین اس اتحاد کا حصہ ہیں۔ حزب مخالف کو دس مزید اراکین کی حمایت درکار ہے، حزب اختلاف کی جانب سے حکومتی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کے علاوہ جہانگیر ترین گروپ سے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں۔ جہانگیر ترین گروپ کا دعویٰ ہے کہ ان کیساتھ اس وقت سات ممبران قومی اسمبلی ہیں۔وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک کی کامیابی کے لیے ووٹ پورے کرنے کی غرض سے حکومتی اتحادیوں سے لاہوراور سندھ میں ملاقاتیں جاری ہیں، لانگ مارچ بھی کیا جا رہا ہے۔گذشتہ تین برس کے دوران حکومت اوراتحادیوں کے درمیان شدید اختلافات بھی سامنے آئے ہیں اور زیادہ مواقع پراتحادی جماعتیں اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہی ہیں۔ ملک کی معاشی صورتحال اور عوام پر مہنگائی کا بوجھ اس وقت بڑھ گیا ہے کہ یہ اتحادی جماعتیں بھی نہ صرف حکومتی پالیسیوں کوتنقید کا نشانہ بنارہی ہیں بلکہ حکومتی کارکردگی سے مایوس آئندہ انتخابات میں اپنے ووٹ بینک کیلئے پریشان نظر آتی ہیں۔
فلور آف دی ہاؤس پر نمبرز کا کھیل کوئی بھی رْخ اختیار کر سکتا ہے۔اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی اپنے دائروں میں خاصے پراعتماد نظر آتے ہیں۔ مگر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ابھی کوئی ایسا اشارہ نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات میں شدت اب بھی قائم ہے۔ اہم یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس آج کیاچوائس ہے؟ 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف سادہ اکثریت لینے میں نا کام رہی جبکہ حکومت بنانے کیلئے اس نے اپنے اتحادیوں کی طرف رجوع کیا۔عدم اعتمادتحریک کو کامیاب بنانے کے لئے اپوزیشن کو کم از کم 10ایم این ایزکا فاروڈ بلاک بنا کر حکومتی حمایت کو نظر اندازکراکے قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد کے حق میں ووٹ دینا پڑے گا۔پی ٹی آئی کو اس عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کیلئے اپنے 10رکن اسمبلی کی ناراضی کو ختم کرنا ہوگا،یا ووٹنگ ڈے مکمل طور پر تمام اراکین کے ساتھ غیرحاضر رہنے کی سٹریٹیجی اپنانی پڑے گی ۔ پاکستان تحریک انصاف نے جنرل الیکشن 2018ء میں 46 امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیں جنکی ماضی میں سیاسی وابستگی دوسری سیاسی جماعتوں سے رہی جبکہ 5آزاد ایم این ایز کامیابی کے بعد حکومت کا حصہ بنے۔عمومی طور پر اسطرح کی صورتحال میں حکومتی جماعت سیاسی اورانتظامی طور پرکمزور نظر آتی ہے کیونکہ حکومت میں شامل سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے اراکین اسمبلی کسی بھی وقت پلٹ سکتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد میں خفیہ رائے دہی کے بجائے اراکین اسمبلی کو خود کو سامنے لانا پڑتا ہے ۔ طریق کار کے مطابق حکومت کا ساتھ دینے والے اراکین اسمبلی حکومتی بینچوں میں وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے ہونگے جبکہ تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دینے والے قائدحزب اختلاف کے پاس جمع ہوتے ہیں، اس تمام عمل کے دوران کھل کر اخلاقیات اور اصولوں کی پامالی ہوتی نظر آتی ہے۔ جن اراکین قومی اسمبلی نے وزیر اعظم کی مخالفت میں ووٹ دیا ہوگا انکے خلاف اسپیکر اسمبلی کی جانب سے آئین کے مطابق قانونی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔آئین پاکستان میں 18ویں ترمیم کے بعدآرٹیکل 63کی شق 2میں حکمران جماعت کیخلاف فارورڈ بلاک بنانے پرآئین سیاسی جماعتوں کوانتباہ کرتا ہے کہ کسی پارلیمانی جماعت میں فاروڈ بلاک نہیں بن سکے گا اگر کوئی پارلیمنیٹرین بلاک بنانے کی کوشش کرے گا تو وہ قومی اسمبلی کی رکنیت سے فارغ کر دیا جائے گا۔
موجودہ سیاسی صورتحا ل میں اس وقت تحریک انصاف حکومت کو بچانے کیلئے جبکہ اپوزیشن حکومت کو گرانے کے لئے سیاسی داؤ پیچ لڑ رہے ہیں۔ حکومت اپنے اتحادی ایم کیو ایم پاکستان،مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہان کے ساتھ حکومت کی حمایت کے لئے مسلسل رابطوں میں ہیں۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کا کہنا ہے کہ انکے پاس 20 سے زائد تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دینے کو تیار ہیں۔اپوزیشن کھل کر اپنی حکمت عملی ظاہر نہیں کر رہی۔وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اگر قومی اسمبلی میں کامیاب ہوتی ہے تو ملک کا سیاسی منظر نامہ مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گا۔اہم ہے کہ حکومتی اتحادی جماعتیں ایم کیو ایم پاکستان،مسلم لیگ ق ،جی ڈی اے اور بلوچستان عوامی پارٹی حکومت سے کیوں الگ ہونگی جب اپوزیشن نے انکے ساتھ آئندہ کے سیاسی اورانتخابی لائحہ عمل کوبھی یقینی نہیں بنایا، اور کیا 1957 کی تاریخ خود کو دہرا پائے گی؟