وطن عزیز کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے عہدے اور فرائض کو اختیارات تک محدود رکھتے ہیں اور اختیارات کو اپنا حق سمجھتے ہیں جبکہ ذمہ داری نہ جانے کہاں کھو جاتی ہے۔ ہمارے اختیارات ہمارے مزاج کے تابع ہونے لگے ہیں۔ میرے لیے یہ بات انتہائی حیرت کا باعث ہے کہ فلاں عہدیدار بڑا سخت ہے، فلاں بڑا نرم ہے۔ بدعنوان اور دیانت دار ہونا الگ بات ہے یہ مزاج کو قانون کا درجہ مل جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ سیدھی بات ہے جہاں قانون سخت ہو وہاں مزاج بھی سخت ہو اور جہاں قانون میں نرمی ہے وہاں مزاج میں نرمی، گویا قانون کی حکمرانی ہی عہدیدار کا مزاج ہونا چاہیے یعنی قانون پر نہیں قانون کو مزاج پر حاوی ہونا چاہیے۔ یہ بات عام ہے کہ جج صاحب جب آرڈر لکھوا رہے ہوں ڈکٹیٹ کر رہے ہوں تو بولنا نہیں چاہئے ورنہ وہ غصے میں آ جاتے ہیں۔ اگر درمیان میں وکیل نے اپنی استدعا کی صراحت کرنا چاہی تو یہ اتنی بڑی غلطی ہو گئی کہ جج صاحب ’’کاتب تقدیر‘‘ کا روپ دھار بیٹھے۔ پھر فیس ویلیو کا بڑا چرچا ہے۔ کیا آئین اور قانون، شہرت اور سماجی مقام کے تابع ہوا کرتا ہے۔ ویسے تو موجودہ حکومت نے جو چاہا قانون پاس کرا لیا۔ ایک ایک اجلاس میں درجنوں قوانین پاس ہوئے۔ ذاتی طور پر وزیراعظم کے کرپشن کے خلاف بیانیے کے ساتھ ہوں۔ مگر یہ بیانیہ اگر پونے چار سال بعد شہزاد اکبر کی بھینٹ چڑھ جائے تو پھر عوام میں مایوسی پھیلنا لازمی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا 117 سے 140 ویں درجے پر فائز کرنا تشویش ناک ہے۔ عدالتی امور میں دیکھا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کافی حد تک نظام عدل کو سہارا دیئے ہوئے ہیں جبکہ ماتحت عدلیہ کا معاملہ مختلف ہے۔ کہیں وکلا ان پر حاوی ہیں اور کہیں خود ان کے عمال اور تعلقات ان کے راستے کی قدغن ہیں لیکن سپیشل عدالتیں یا ٹربیونل جن میں ان لینڈ ریونیو، کسٹم ٹربیونل وغیرہ شامل ہیں ان ٹربیونلز میں اربوں روپے کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اور عام تاثر یہ ہے کہ کروڑوں کا کاروبار بھی ہوتا ہے۔ یقین واثق ہے کہ صورت احوال چیئرمین کسٹم ٹربیونل پاکستان جناب محمد عارف خان کے علم میں نہ ہے، ورنہ فیصلے باہر سے لکھوانے اور دیگر خرافات کی بازگشت زبان زد عام نہ ہو لہٰذا اس حوالے سے متعلقہ قوانین میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ ملکی عدالتیں جن میں سول سے لے کر اعلیٰ عدلیہ تک شامل ہیں۔ ہر نوع کے مقدمات کو احسن طریقہ سے سماعت بھی کرتی ہیں اور فیصلے بھی۔ یہ خوبی کسی نعمت سے کم نہیں، دیانت داری اور ذہانت کے ساتھ علمیت شرط ہے۔ مختلف نوع کے مقدمات میں وکلا کی سپیشلائزیشن ہے جو عدالتوں کی معاونت کرتے ہیں۔ مگر ہماری چھوٹی ماتحت عدلیہ اور سپیشل ٹربیونل میں انصاف کی قاتل روایت در آئی ہے کہ وکلا کی بحث اور دلائل ریکارڈ کا حصہ نہیں بنتے اور نہ ہی فیصلے میں ان کا شائبہ تک آتا ہے۔ اپیل کے وقت متاثرہ فریق حیران رہ جاتا ہے کہ اس کے مدعا کی بنیاد کا تذکرہ تک نہیں۔
دیگر محکموں کی بات الگ ہے، رشوت لینا گناہ اور غیر قانونی ہے مگر انصاف کی کرسی پر یہ حرکت ایسے ہی ہے جیسے ممنوعہ رشتوں کے ساتھ ناجائز بد اخلاقی حرکت کرنا کہ اگلا انصاف کی خاطر کھڑا ہے اور کوئی دکان لگائے بیٹھا ہو۔ میں نہیں مانتا کہ بندے کا کردار طاقتور ہو تو کوئی جتھہ، کوئی غیر قانونی اعلیٰ افسر اس سے غلط کام کرا سکے۔ یقین کریں کوئی جرأت ہی نہیں کرتا ناجائز حکم دینے کی۔ میں نے کسٹم افسران کلکٹر محمد محسن رفیق، ڈائریکٹر پی سی اے محترمہ نورین احمد تارڑ، جناب مرزا مبشر بیگ، محترمہ مریم مہدی، محترمہ نازیہ سلیم، چیف کلکٹر جناب محمد صادق، فیض احمد چدھڑ، ذوالفقار چودھری کو محکمہ کے مقدمات کے بارے میں بہت فکر مند پایا۔ حتیٰ کہ مغل پورہ ڈرائی پورٹ پر لا برانچ کو دیکھنے والے سلیم اقبال منج کو بھی فکر مند دیکھا کہ کہیں کسی مقدمہ میں اپیل کی میعاد نہ گزر جائے۔ صدیقی اینڈ کو کا مقدمہ سپریم کورٹ تک کلکٹر جناب محسن رفیق کی ذاتی دلچسپی اور سلیم اقبال منج کے چوکنا رہنے کی وجہ سے محکمہ کے حق میں ہوا۔ پچھلے دنوں وزیر اعظم کا بیان تھا، پتہ نہیں حکومت کے کتنے سو ارب روپے مختلف فورم پر رُکے پڑے ہیں، شاید ایف بی آر کے لوگ ان کی معاونت کرتے ہیں۔ در اصل وطن عزیز کے قوانین اور پروسیجر پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ وطن عزیز اخلاقی، سماجی، قانونی اور ہر طرح سے بحرانی کیفیت میں ہے جس کی بنیاد معاشی بحران ہے۔ معیشت آکسیجن پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سٹیٹ بینک بل، آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے ہماری معاشی پالیسیاں حتیٰ کہ اقتدار اعلیٰ گروی رکھ دیا گیا۔ کسٹم ٹربیونل یا دیگر ٹربیونل میں قانونی طور پر ایک ممبر ٹیکنیکل اور ایک جوڈیشل ممبر ہوتا ہے۔ ان میں ایک ممبر ٹیکنیکل محکمہ سے آتا ہے جبکہ جوڈیشل ممبر، حکومت اپنے اقتدار میں لوگوں کو نوازتی ہے۔ ممبر ٹیکنیکل اگر محکمہ کا نیک، دیانتدار اور قانون جاننے والا آ گیا تو قومی خزانہ محفوظ ہو گیا ورنہ تعینات کیے جانے والے کا مستقبل اور بڑھاپا محفوظ ہو گیا۔ بعض اوقات یہاں پر اپنے لیے ایک بوٹی کے لیے قومی خزانے کا بکرا نہیں پورا ریوڑ ذبح کر دیا جاتا ہے۔ کسٹم ایکٹ میں اس حوالے سے خاص طور پر ٹربیونلز کی تشکیل کے حوالہ سے زبردست انقلابی تبدیلی درکار ہے۔ ہر کسی کی شہرت پورا محکمہ جانتا ہوتا ہے، اچھی شہرت کے حامل ممبرز کو تعینات کیا جانا چاہیے۔ متعلقہ محکمہ کے اعلیٰ افسران جن کے فیصلے اکثر پڑھنے کے قابل ہوتے ہیں مگر پھر بھی متاثرہ شخص کو اپیل کا حق سیدھا ہائی کورٹ سے رجوع ہونا چاہیے۔ ہائی کورٹ میں ریفرنس صرف قانونی نقطہ پر ہوتا ہے جس کا کینوس بہت محدود ہوتا ہے۔ بہت سال پہلے ایک دوست نے کہا تھا کہ پاکستان میں سرکاری محکمہ کے خلاف مقدمہ میں کامیابی دنیا کا آسان ترین کام ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہی ہے کہ پرائیویٹ پارٹی کے ہاتھ ہر لحاظ سے کھلے ہوتے ہیں۔ اگر کسی محکمہ کے فیصلہ یا رویے کے خلاف کوئی ایک ہائی کورٹ میں رٹ میں چلا جائے تو 90 فیصد معاملات میں محکمہ کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے۔ لیکن ایسے معاملات میں آپ ٹربیونلز کا ریکارڈ چیک کر لیں، اکثریت فیصلے محکمہ جات کے خلاف ہوتے ہیں اور پھر ان کے خلاف اپیل نہیں ریفرنس کی گنجائش بچتی ہے جس میں سکوپ بہت کم رہ جاتا ہے۔ قومی خزانے کے تحفظ کے لیے سپیشل ٹربیونلز کے قوانین میں تبدیلی کرنا ہو گی۔ محکمہ کے خلاف اپیل سیدھی ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کے لیے قانون سازی کرنا ہو گی یا پھر اگر ٹربیونلز کے بغیر گزارا نہیں تو اچھی شہرت کے حامل افراد، جن کی کمی نہیں ہے، تعینات کرنا چاہیے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اس بنیاد پر تین سال سے لاہور میں کوئی مستقل بنچ نہ بنایا کہ اس کو اطلاع تھی کہ بعض ٹربیونل عدالتیں نہیں دکانیں ہیں۔ ان کے فیصلے ایف بی آر، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اور وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں مانیٹر ہونے چاہئیں۔ چیئرمین ٹربیونلز جناب محمد عارف خان کو بھی وفاقی ٹیکس محتسب جناب ڈاکٹر آصف محمود جاہ(ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز) کی طرح شکایات کے لیے وزیر اعظم پورٹل کا قیام عمل میں لانا چاہیے۔ انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر فیصلے چمک کے تابع کرنے والے شاید نہیں سوچتے کہ کفن کے بند بھی بندھیں گے، لحد میں اترنا ہو گا اور فیصلے بچھو بن جائیں گے۔ جبکہ شہرت کا عالم یہ کہ رشوت دینے والا پوری زندگی ان کے ثواب دارین کے لیے دی گئی رشوت کی داستان سناتا رہے گا۔