دسمبر 1930میں حکیم الامت حضرت علامہ اقبال ؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد میں برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے الگ آزاد مملکت کا تصور پیش کیا تو یہ اس بات کی علامت تھی کہ وہ عظیم المرتبت شخصیت جسے اللہ کریم نے یہ صلاحیت اور مرتبہ عطا کر رکھا تھا کہ وہ اپنے فکر و فلسفے اور اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیں بلکہ ملت اسلامیہ کو بھی اپنی عظمت رفتہ حاصل کرنے کے لیے آمادہ پیکار کریں،وہ برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے قومی وجود کے تحفظ اور بقا کے لیے برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کو ناگزیر سمجھنے لگی ہے۔ اقبالؒ جنہیں تصور پاکستان کے خالق ہونے کا لافانی اعزاز حاصل ہے نے اپنے خطبہ الہ آباد میں ارشاد فرمایا"میں برصغیر جنوبی ایشیا کے شمال مغرب میں پنجاب ، شمال مغربی سرحدی صوبے ، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کی صورت میں متحد دیکھنا چاہتا ہوں۔ میرے نزدیک برٹش ایمپائر کے اندر یا اس کے باہر ایک خود مختار مسلم ریاست کی تشکیل مسلمانوں کا بالخصوص شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے۔ "
اقبالؒ نے اپنے خطبہ الہ آباد میں برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے الگ مملکت کا تصور پیش کیا تو یہ کوئی حادثاتی واقعہ نہیں تھا۔ یقینا یہ امر ربی تھا ، رب کریم کا احسان عظیم تھا، اس کے پیارے حبیب ﷺ کی نظر کرم کا صدقہ تھا کہ قسام ازل کی طرف سے عالمی نقشے پر نئی سرحدی لکیروں کے وجود میں آنے کا وقت قریب آچکا تھا۔ لیکن پھر بھی شاید مس خام کو کندن بننے میں ابھی کچھ اور وقت چاہیے تھا ۔ ابھی برصغیر ایشیا کے مسلمانوں کو جو برصغیر کی ہندو اکثریت کے مقابلے میں محض ایک اقلیت نہیں تھے بلکہ ایک الگ قوم کی حیثیت بھی رکھتے تھے، انہیں ہندوئوں اکثریت اور انگریز حکومت کی طرف سے مزید کچھ سختیاں، جبر ، اور ناروا ہتھکنڈے برداشت کرنے تھے۔ علامہ اقبال ؒکے خطبہ الہ آباد کے سامنے آنے کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ اس کوشش میں رہی کہ کانگریس کے ساتھ کوئی ایسا سمجھوتہ ہو جائے جس کے تحت متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو اُن کی تسلی اور اطمینان کے مطابق آئینی تحفظ حاصل ہو سکے لیکن کانگریس کے نزدیک ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی وہ اپنے آپ کو ہندوستان کے عوام کی
اکثریت کی نمائندہ سمجھتے ہوئے بہت اُونچی ہوائوں میں اُڑ رہی تھی پھر 1936-37 کے عام انتخابات میں اُس کی کامیابی کے نتیجے میں آٹھ صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں تو اُس کے غرور ، تکبر اور ہٹ دھرمی میں مزید اضافہ ہوا اُس نے اپنی زیرِ نگرانی حکومتوں میں ایسے اقدامات کیے جو سر اسر مسلم کُش پالیسیوں پر مبنی تھے ان میں خالص ہندو سوچ اور نظریات پر مبنی’’ بندے ماترم‘‘ کے ترانے کا تعلیمی اداروں میں رائج کرنا بھی شامل تھا۔ یہ اور اسی طرح کے اور دوسرے مسلم مخالف اقدامات سے مسلمانوں پر یہ حقیقت مزید واضح ہو گئی کہ کانگریس کا نصب العین متحدہ ہندوستان میں ہندو راج کے قیام کے سوا اور کچھ نہیں ۔اس طرح اب اُن کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار باقی نہیں بچا تھا کہ وہ علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد میں پیش کیے ہوئے مسلمانوں کے لیے جداگانہ ملک کے تصور کو اپنا قومی نصب العین قرار دے کر عملی جامہ پہنائیں ۔چنانچہ 1940کے آخری عشرے میں منٹو پارک لاہور (موجودہ علامہ اقبال پارک) میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے انعقاد کا علان ہوا تو برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی اکثریت اپنے عظیم قائد محمد علی جناحؒ کی قیادت میں اپنے قومی وجود کے تحفظ اور بقا کے لیے حضرت علامہ اقبالؒ کے خطبہ الا آباد کی روشنی میں جہاں اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ ان کے لیے ہندوستان میں ہندو اکثریت کے ساتھ مل کر رہنا ممکن نہیں وہاں وہ اپنے لیے الگ مملکت کے حصول کو اپنا قومی نصب العین قرار دے کر اس کے لیے ہر طرح کی جدوجہد کرنے اور قربانی دینے کے لیے بھی ذہنی ، فکری اور جسمانی طور پر تیار ہو چکی تھی ۔
بالآخر وہ لمحہ قریب آن پہنچا جب 22مارچ سے 24مارچ 1940تک لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے ہر صورت میں انعقاد کا حتمی فیصلہ سامنے آگیا۔ تقریبا ً آٹھ عشرے بعد مارچ 2022میں یہ سطور لکھتے ہوئے تصور کی آنکھوں سے کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی اُمنگوں ، آرزوئوں، ولولوں اور جوش و جذبے کا کیا عالم ہوگا۔وہ خیبر سے چٹا گانگ اور کشمیر سے راس کماری تک گروہ در گروہ برصغیر کے تہذیبی اور تاریخی مرکز اور حضرت داتا ؒ کی نگری لاہور کی طرف عازم سفر تھے ۔ جہاں منٹو پارک کا وسیع و عریض میدان انہیں اپنے دامن میں سمیٹنے کے لیے تیار تھا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس میں پورے ہندوستان سے تقریبا ً 1لاکھ مندوب شریک ہو رہے تھے۔ ان میں ہندوستان کے مختلف صوبوں سے جن میں پنجاب ، سندھ، شمال مغربی سرحدی صوبہ ، بلوچستان اور مشرقی بنگال جیسے مسلم اکثریتی صوبوں کے مندوب شامل تھے تو ان سے بڑھ کر زیادہ تعداد میں یوپی، سی پی ، آسام ، بمبئی ، مدراس، مہاراشٹر جیسے مسلم اقلیتی صوبوں اور دہلی ، لکھنو اور حیدر آباد جیسے اسلامی تہذیب کے مراکز سے تعلق رکھنے والے مندوب بھی شامل تھے۔ پورے برصغیر جنوبی ایشیا سے مسلم راہنمائوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے صوبوں کی نمائندگی اور اپنے اپنے مندوبین کی قیادت کے لیے موجود تھی۔ ان میں پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، میاں بشیر احمد، ملک برکت علی اور بیگم شاہ نواز ممدوٹ ، شمال مغربی سرحدی صوبہ سے سردار عبدالرب نشتر اور سردار اورنگزیب ، سندھ سے سر عبداللہ ہارون، بلوچستان سے قاضی محمد عیسیٰ اور نواب مراد محمد خان جمالی ، بمبئی سے ابراھیم اسماعیل چندریگر ، یوپی سے چوہدری خلیق الزمان ، مدراس سے نواب اسماعیل ، حیدرآباد دکن سے نواب بہادر یا ر جنگ ، بنگال سے خواجہ ناظم الدین ، حسین شہید سہروردی، مولانا ابوالہاشم اور مولوی اے کے فضل الحق کے علاوہ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ بنفس نفیس اور ان کے دست راست لیاقت علی خان ، راجا صاحب محمود آباد اور ایم ایچ اسفہانی بھی شامل تھے۔ بلاشبہ یہ ایک یادگار اور بے مثال اجتماع تھا۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس میں متحدہ بنگال کے وزیر اعظم مولوی اے کے فضل الحق جو شیر بنگال کے لقب سے موسوم تھے نے وہ تاریخ ساز قرارداد پیش کی جسے قرار داد لاہور کا نام دیا گیا لیکن بہت جلد ایک دو سال کے اندریہ قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہوگئی ۔ یہ قرارداد انگریزی زبان میں پیش کی جارہی تھی اور مولانا ظفر علی خان ساتھ ساتھ اس کا اردو میں ترجمہ کر رہے تھے اس قرارداد میں کہا گیا کہ ’’بڑے غور وفکر کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کسی دستوری منصوبے پر اس ملک میں عملدرآمد نہیں ہوسکتا اور وہ مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو سکتا جب تک وہ ان بنیادی اصولوں پر تیار نہ کیا گیا ہو یعنی ضروری علاقائی رد و بدل کر کے جغرافیائی اعتبار سے متصل یونٹوں پر مشتمل علاقوں کی حد بندی کی جائے اور یہ کہ جن علاقوں میں تعداد کے لحاظ سے مسلمان اکثریت میں ہیں جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی منطقے اور مشرقی منطقے انہیں خود مختار ریاستیں قرار دیا جائے جس میں ملحقہ یونٹ خود مختار اور آزاد ہوں۔