اسلام آباد:پاکستان میں زیادہ قیمتوں کی وجہ سے سگریٹ کی کھپت میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے جس سے 11 ارب سگریٹ سٹکس کی کھپت میں کمی ہوئی ہے، اور سینٹر فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کے ایک سروے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ٹیکس لگانا سگریٹ کے استعمال کو کنٹرول کرنے اور اس پر قابو پانے کے لیے اہم ہے۔
سی آر ڈی کی ڈائریکٹر مریم گل طاہر کاکہنا ہےکہ ایف ای ڈی کے نفاذ کے بعد سگریٹ کی کھپت میں 11 ارب سے زائد کی کمی آئی ہے۔ایسےاقدامات پاکستان سگریٹ کی کھپت کو کم کرنے، صحت عامہ کے نتائج کو بہتر بنانے اور ساتھ ہی ساتھ تمباکو کی مصنوعات پر بڑھے ہوئے ٹیکس کے ذریعے حکومتی محصولات کو بڑھانے کے لیے ایک آزمودہ طریقہ اختیار کر سکتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق، تمباکو پر ٹیکس میں 10 فیصد اضافہ عام طور پر زیادہ آمدنی والے ممالک میں تمباکو کی کھپت میں 4 فیصد اور کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں تقریبا 8 فیصد تک کمی لاتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سگریٹ پر زیادہ ٹیکسوں کو بطور روک تھام تمباکو کے استعمال اور اس سے منسلک صحت کے اخراجات کو نمایاں طور پر کم کر سکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 31 ملین سے زیادہ بالغ (15 سال یا اس سے زیادہ عمر کے) تمباکو استعمال کرنے والے ہیں، یہ تعداد ملک کے بالغوں (15 سال یا اس سے زیادہ عمر کے)کا تقریبا پانچواں حصہ ہے۔
پاکستان میں دو درجے کا ایف ای ڈی ڈھانچہ ہے اور ریٹیل قیمتوں میں اس کا حصہ بالترتیب 48فی صد اور 68فی صد کم اور اعلی درجے کے لیے ہے۔ بہت سارے تحقیقی مطالعات اور سروے نے توثیق کی ہے کہ ٹیکس میں اضافہ سگریٹ کی کھپت کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ سی آر ڈی کے ایک حالیہ سروے نے تمباکو نوشی کی عادات میں نمایاں تبدیلی کو اجاگر کیا ہے، جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 18فی صد جواب دہندگان نے سگریٹ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے تمباکو نوشی چھوڑ دی ہے۔سروے کے نتائج سگریٹ کی قیمتوں اور تمباکو کے استعمال کے درمیان مضبوط تعلق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ قابل ذکر 63فی صد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ تمباکو کی زیادہ قیمتیں تمباکو نوشی کی شرح کو کم کرتی ہیں۔
مزید برآں، تقریبا 15فی صد تمباکو نوشی کرنے والوں نے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے سگریٹ کا استعمال کم کرنے کی اطلاع دی۔ کھپت میں کل کمی کا تخمینہ تقریبا 20 بلین سگریٹ سالانہ ہے۔2022 میں، پاکستان میں سگریٹ کی کل کھپت 72 سے 80 بلین کے درمیان تھی، جس میں سرکاری طور پر اعلان کردہ پیداوار، سمگل شدہ سگریٹ، جعلی مصنوعات، اور سگریٹ شامل ہیں جن کے لیے ڈیوٹی ادا نہیں کی گئی ہے۔
یہ اعداد و شمار ملک میں تمباکو کے استعمال کی وسیع رسائی اور ٹیکس لگانے کی سخت پالیسیوں کے ممکنہ اثرات کو اجاگر کرتے ہیں۔اس سال کے شروع میں، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے حکام سے سفارش کی کہ وہ واحد درجے کے ٹیکس ڈھانچے کو اپنائیں اور ٹیکس کو آسان بنائیں۔دریں اثنا، ورلڈ بینک نے نشاندہی کی کہ سگریٹ کے تمام زمروں پر موجودہ پریمیم سگریٹ ٹیکس کی شرح (16.50 روپے فی سگریٹ)لاگو کرنے سے جی ڈی پی کا 0.4 فیصد اضافی حاصل ہو سکتا ہے، جس کی رقم 505.26 بلین روپے بنتی ہے۔