توہین عدالت کیس: فیصل واڈا سے جواب طلب, مصطفیٰ کمال کی معافی کی استدعا مسترد، ٹی وی چینلز کو شو کاز نوٹسز جاری

توہین عدالت کیس: فیصل واڈا سے جواب طلب, مصطفیٰ کمال کی معافی کی استدعا مسترد، ٹی وی چینلز کو شو کاز نوٹسز جاری

اسلام آباد:فیصل واوڈا اورمصطفیٰ کمال کے خلاف توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ نے توہین آمیز پریس کانفرنس نشر کرنے پر تمام ٹی وی چیلنز کو شو کاز نوٹسز جاری کردیے۔ سپریم کورٹ  نے تمام ٹی وی چینلز سے دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا ہے۔

سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا کو  اپنے جواب پر نظرثانی کرنے اور دوبارہ جواب جمع کروانے کیلئے مہلت دے دی ۔کیس کی مزید سماعت 28 جون تک ملتوی  کردی گئی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ سماعت کی، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان بینچ میں شامل ہیں۔اس حوالے سے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال عدالت میں پیش ہیں۔ 

فیصل واؤڈا اور مصطفیٰ کمال سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش ہوئے، سینیٹر فیصل واؤڈا کی جانب سے وکیل معیز احمد جبکہ مصطفیٰ کمال کی جانب سے وکیل فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔

وکیل فروغ نسیم نے عدالت میں مصطفیٰ کمال کا معافی کا بیان پڑھ کر سنایا اور استدعا کی کہ عدالت مصطفیٰ کمال کی غیر مشروط معافی قبول کر کے توہینِ عدالت کی کارروائی ختم کر دے۔

سپریم کورٹ نے مصطفیٰ کمال کی فوری معافی کی استدعا مسترد کر دی۔

وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ مصطفیٰ کمال نے 1 صفحے کے جواب میں معافی مانگی ہے، انہوں نے 16 مئی کی پریس کانفرنس پر معافی مانگی ہے، مصطفیٰ کمال نے رباء کی زیرِ التواء اپیلوں سے متعلق میڈیا سے گفتگو کی تھی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ وہ اپیلیں وفاقی شرعی عدالت میں نہیں ہیں؟ فیصل واؤڈا کے وکیل کہاں ہیں؟

اس موقع پر فیصل واؤڈا کے وکیل معیز احمد روسٹرم پر آ گئے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ہدایت کی کہ ہمارا گزشتہ سماعت کا حکم نامہ کیا تھا؟ دکھائیں! کیا مصطفیٰ کمال نے فیصل واؤڈا سے متاثر ہو کر دوسرے روز میڈیا سے گفتگو کی؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا ہمیں لوگوں نے ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے بٹھایا ہے؟ ہم نے نہیں کہا کہ ہمارے فیصلوں پر تنقید نہ کریں، ٹی وی چینل والے سب سے زیادہ گالم گلوج کو ترویج دیتے ہیں، ٹی وی چینلز کہہ دیتے ہیں کہ فلاں نے تقریر کی، ہم نے چلا دی، یہ اظہارِ رائے کی آزادی ہے، پیمرا نے عجیب قانون بنا دیا کہ عدالتی کارروائی رپورٹ نہیں ہو گی، یہ زیادتی ہے، عدالتی کارروائی کیوں رپورٹ نہیں ہو گی؟ فیصل واؤڈا کی میڈیا ٹاک کو تمام ٹی وی چینلز نے چلایا، ٹیلیوژن چینلز نے 34 منٹ تک تقریر نشر کی، کیا اب ٹی وی چینلز کو بھی توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کریں؟ جس پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ میرے خیال میں نوٹس بنتا ہے۔

سپریم کورٹ نے عدالتی رپورٹنگ پر پابندی پر پیمرا سے جواب طلب کر لیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ایسی پریس کانفرنسز نشر ہوتی رہیں تو کوئی مسئلہ نہیں مگر عدالتی کارروائی سے مسئلہ ہے؟ جس پر پیمرا کے وکیل نے روسٹرم پر آ کر جواب دیا کہ مجھے ابھی اس سے متعلق ہدایات نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پریس کلب کے بجائے ہمارے سامنے کھڑے ہو کر بات کرتے، کیا ایسی گالم گلوچ کسی اور ملک میں بھی ہوتی ہے؟ مجھے جتنی گالیاں پڑی ہیں شاید کسی کو نہ پڑی ہوں، اپنی ذات پر نوٹس نہیں لیا، آپ نے عدلیہ پر بات کی اس لیے نوٹس لیا، مجھے اوپر والے سے ڈر لگتا ہے، جس نے گالی دی اسے بھی انصاف دینا ہے۔

وکیل معیز احمد نے استدعا کی کہ فیصل واؤڈا پیمرا سے متعلق بات کرنا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے اپنی نہیں سنانی آپ کو سننا ہے، آپ وکیل ہیں، آپ معافی نہیں مانگنا چاہتے؟ جس پر فیصل واؤڈا کے وکیل معیز احمد نے جواب دیا کہ جواب جمع کرایا ہے، عدالت میں پڑھنا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ کے کلائنٹ نے کہا کیا ہے؟ پہلے دیکھتے ہیں کہ توہینِ عدالت بنتی ہے یا نہیں۔ جس پر فیصل واؤڈا کے وکیل معیز احمد نے جواب دیا کہ میں اس پریس کانفرنس کے بعد ہونے والے سوال جواب پڑھنا چاہتا ہوں۔

جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ آپ نے صحافی کے جواب میں واضح کہا کہ جسٹس بابر ستار اور جسٹس اطہر من اللّٰہ کے خلاف بات کرنے آیا ہوں، آپ نے پریس کانفرنس پاکستان کے لوگوں کے بارے میں نہیں کی، دو انتہائی قابلِ احترام ججز پر بات کی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کبھی ہم نے یہ کہا کہ فلاں کو پارلیمنٹ نے توسیع کیوں دے دی؟ آپ نے کس حیثیت میں میڈیا ٹاک کی، آپ کیا بار کونسل کے جج ہیں؟ یہاں بھی لوگ بیٹھے ہیں، بڑے بڑے ٹویٹس کر جاتے ہیں، جو کرنا ہے کریں، بس جھوٹ تو نہ بولیں، صحافیوں کو ہم نے بچایا، ان کی درخواست ہم نے اٹھائی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل واؤڈا سے سوال کیا کہ آپ اس پریس کانفرنس سے کس کی خدمت کرنا چاہتے تھے؟ کیا آپ نے کوئی قانون بدلنے کے لیے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا؟ ہم نے کبھی کہا کہ فلاں سینیٹر نے اتنے دن اجلاس میں شرکت کیوں نہیں کی؟

صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ پیمرا عدالتی رپورٹنگ پر پابندی نہیں لگا سکتا، پیمرا کو ٹی وی پروگرامز میں بے بنیاد باتوں کو دیکھنا چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کئی لوگ فیصلوں پر اعتراض کرتے ہیں، پوچھا جائے فیصلہ پڑھا تو جواب ہوتا ہے نہیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ٹی وی چینلز کی ذمے داری ہے کہ پلیٹ فارم کو توہین کے لیے استعمال نہ ہونے دیں، ٹی وی چینلز نے اپنا پلیٹ فارم مہیا کرنا چھوڑ دیا تو معاملہ ختم ہو جائے گا، دو ججز کے متعلق ایسی باتیں کی گئیں اور ٹی وی چینلز نے انہیں نشر کیا، توہینِ عدالت پر سزا کے ساتھ 1 لاکھ روپے جرمانہ ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ایک بیان میں کوئی 10 بار توہین کرے تو جرمانہ 10 لاکھ روپے ہو گا؟

عدالتِ عظمیٰ نے توہین آمیز پریس کانفرنس نشر کرنے پر تمام ٹی وی چینلز کو نوٹسز جاری کر دیے اور 2 ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔

سپریم کورٹ نے وکیل حافظ عرفان کو قرآن و حدیث کے حوالوں سے معاونت کرنے کی ہدایت بھی کر دی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم ابھی کچھ بھی نہیں کر رہے، پہلے کنڈکٹ دیکھیں گے۔ مصطفیٰ کمال کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ 16 مئی کے بعد سے اس گفتگو کے حق میں ایک لفظ نہیں کہا۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ مصطفیٰ کمال کو اشارہ مل گیا ہے، وہ پریس کانفرنس کریں گے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے کہا کہ آپ پراسیکیوٹر ہیں، ایسی بات نہ کریں، جھوٹ بولنے سے ڈالر ملتے ہیں، سارے صحافیوں کو ہم نے بچایا، عدالتی فیصلوں پر ضرور تنقید کریں اڑا کر رکھ دیں۔

صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ ہم عدلیہ مخالف مہم کے مکمل مخالف ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی نے میرے فیصلے پر تنقید کرنی ہے تو پڑھ کر کرے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا قانون نہیں لیکن ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری ہونا چاہیے۔ مصطفیٰ کمال کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ ہم قانون بدلنا چاہتے تھے، اس پر شور پڑ جانا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا شور کیوں پڑنا تھا؟  جس پر مصطفیٰ کمال کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ اس معاملے پرفی الحال کچھ نہیں کہنا چاہتا، مصطفیٰ کمال کی حد تک نوٹس واپس لے لیں، مصطفیٰ کمال ربا کو اللّٰہ کے ساتھ جنگ کہتے ہیں، اس کیس کا فیصلہ چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے تو لگا تھا کہ مذہبی جماعتوں کا کیس ہے، پہلی بار پتہ چلا کہ ایم کیو ایم بھی شریک ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوا دیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ فیصل واؤڈا معافی مانگ رہے ہیں یا نہیں؟ جس پر فیصل واؤڈا کے وکیل معیز احمد نے جواب دیا کہ مشاورت کے بعد سپریم کورٹ کو آگاہ کریں گے۔

عدالت نے فیصل واؤڈا سے دوبارہ 1 ہفتے میں جواب طلب کر لیا۔

اس کے بعد سپریم کورٹ نے توہینِ عدالت از خود نوٹس کی سماعت 28 جون تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے فیصل واؤڈا اور مصطفیٰ کمال کو بادی النظر میں توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیا تھا اور دونوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا تھا ۔سپریم کورٹ نے کیس میں اٹارنی جنرل پاکستان کو نوٹس بھی جاری کیا تھا ۔

مصطفیٰ کمال نے عدالتی نوٹس کے جواب میں غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا تاہم فیصل واؤڈا نے اپنے جواب میں معافی مانگنے سے انکار کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خلاف پریس کانفرنس کرنے پر فیصل واؤڈا کے خلاف از خود نوٹس لیا تھا۔ 

مصنف کے بارے میں