یہ درست ہے کہ پٹرول کی قیمت میں ایک ہی ہفتے میں دوسری مرتبہ تیس روپے اور مجموعی طور پر ساٹھ روپے اضافے کی خبر نے مجھے چونکا کے رکھ دیاتھا، مجھے حکومت کے اعلان سے مایوسی ہوئی، میں شہباز شریف سے کسی چمتکار کی توقع کر رہا تھا۔ پہلا خیال تھا کہ اگر مہنگائی کر کے ہی معیشت بچانی تھی تو پھر عمران خان میں کیا برائی تھی مگر اس خیال میں جذباتیت تھی، گہرائی نہیں تھی۔ یہ ایک فوری ردعمل تھا۔ میں جانتا ہوں کہ عمران خان صرف مہنگائی کرنے کی وجہ سے رخصت نہیں ہوئے۔
میں نے خود سے پوچھا، شہباز شریف نے اس سخت ترین اقدام کی منظوری کیوں دی ہو گی ، ظاہر ہے یہ آسان نہیں کہ آپ عوامی توپوں کے رخ اپنی طرف کر لیں جب لوگ آپ سے کرشماتی تبدیلیوں کی توقع کر رہے ہوں۔ یہ ہم سب لوگوں کے لئے بھی خجالت کا باعث تھا جنہوں نے شہباز شریف کی اہلیت اور گورننس کے گن گائے ہیں۔ آج میرے پاس مہنگے پٹرول کے حوالے سے ہر سوا ل کا جواب موجود ہے، سیاسی اورمعاشی ہر جواز موجود ہے مگر میں جب لاہور کے لبرٹی چوک میں مہنگے پٹرول کے خلاف احتجاج کرنے والے رکشہ ڈرائیوروں کے ساتھ موجود تھا تو ان کے صرف ایک سوال کا جواب میرے پاس نہیں تھا، وہ کہہ رہے تھے، ہم روزانہ پانچ سے سات سو روپے کماتے ہیں، ہمیں بتا دیں ہم گزارا کیسے کریں۔ ایک کہہ رہا تھا کہ اس نے اپنے بچے سکول نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے اور دوسرا مجھے اپنے بوڑھے والد کی تصویر دکھا رہا تھا جسے اس نے گود میں اٹھا رکھا تھا، وہ معذور تھے اور ان کو رفع حاجت کے لئے پیمپر لگتے ہیں۔ وہ کہہ رہا تھا کہ شہباز شریف کے آنے کے بعد یہ پیمپر سو روپے سے بھی اوپر کا ہو گیا ہے، میں کہاں سے خریدوں، میرا باپ تین دن سے چارپائی پر ہی پیشاب پاخانہ کر رہا ہے، میرے پاس پیمپر خریدنے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔
میں کہہ رہا ہوں کہ شہباز شریف کو کیاشوق تھا کہ وہ اپنے لوگوں کی نظروں میں برا بنے۔ ذرا اس پر غور کیجئے کہ جب عمران خان دوسو روپے لیٹر والا پٹرول ڈیڑھ سو روپے لیٹر دے کر واہ واہ کروا رہا تھا تو وہ یقینی طور پر اپنے ذاتی مال یا اپنی پارٹی کے فنڈ سے خسارہ نہیں پورا کر رہا تھا، یہ گھاٹا قومی خزانے سے ہی پورا ہو رہا تھا ، وہ خزانہ ،جس کے واہ واہ کے شوق میں، خالی ہونے سے ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھ رہا تھا۔ دوسری طرف اگر شہباز شریف نے پٹرول مہنگا کیا ہے تو ہر لیٹر پر یہ ساٹھ روپے وہ اپنے گھر نہیں لے جائے گا بلکہ قومی خزانے میں جائیں گے جس سے ریاست کو مضبوطی اور استحکام ملے گا، اس سے قومی بقا اور ملکی سالمیت کا راستہ نکلے گا۔یہ دلیل قبولیت پاچکی کہ عمران خان نے ریاست کی قیمت پر سیاست بچائی اور شہباز شریف نے اپنی سیاست کی قیمت پر ریاست بچانے کا مشکل ترین فیصلہ کیا ہے۔
آئی ایم ایف کا وہ معاہدہ منظرعام پر لایا جا چکا، ثابت ہوچکا کہ قیمتوں میں اضافے کا معاہدہ عمران خان کی حکومت کا ہی تھا مگر جب انہوں نے تحریک عدم اعتماد آتی دیکھی تو ایک تیر سے دوشکار کئے، پہلے انہوں نے قیمتیں نہ بڑھا کے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی اور دوسرے معاہدے کی خلاف ورزی کر کے اسے معطل کروا دیا یعنی نئی حکومت کے لئے مشکلات بڑھا دیں۔ اسے صرف چالاکی اور ہوشیاری نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ جرم تھا، ملک دشمنی تھی۔ اب دلیل یہ ہے کہ غریب پر بوجھ پڑ رہا ہے اور میں اس دلیل سے انکا رنہیں کر سکتا لیکن اگر عمرانی طریق کار کے مطابق وہ ریلیف جاری رکھا جاتا تو پاکستان خدانخواستہ سری لنکا کی طرح دیوالیہ قرار دے دیا جاتا جس کی خواہش عمران خان اور ان کے ساتھی کر رہے تھے ۔ اس سے پاکستان کے بطور ریاست عالمی کاروباری تعلقات معطل ہوجاتے، اس کے کارخانے بند ہوجاتے اور وہاں کام کرنے والے کروڑوں بے روزگار، سو آپ ہی بتائیے کہ غریب پربوجھ بڑھانا درست ہے یا کارخانوں کو تالے لگوا کے انہیں گھر بٹھا دینا درست ہوتا۔ عالمی اقتصادی تعلقات پر نظر رکھنے والے بتا رہے ہیں کہ سعودی عرب اور چین جیسے دوستوں نے بھی معاشی تعاون کی تسلسل کی شرط آئی ایم ایف کے پروگرام میں واپسی رکھ دی تھی ، یہ ایک منطقی بات ہے کوئی ملک کب تک کسی دوسرے ملک کو بھیک دے سکتا ہے؟
عمران خان کی حکمت عملی یہ تھی کہ وہ شوگر کے مریض کو حلوہ دے رہے تھے اور اس کے ہمدرد بن رہے تھے، وہ دل کے مریض کو پراٹھے اور نہاری کھلارہے تھے تو کیا یہ واقعی خیرخواہی تھی ، وہ ہمدرد ہوتے تو چکنی چپڑی بند کرتے، ایکسرسائز کرواتے، خدا ایسے دوستوں سے دشمنوں کو بھی بچائے۔ اپنے بچے کی جان بچانے کے لئے اس سے چاکلیٹ چھین کے کڑوی دوا ایک ماں ہی دے سکتی ہے، ایک ڈاکٹر ہی ایسی تجویز دے سکتا ہے جو اس کی جان بچانا چاہتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ مہنگے پٹرول کی ذمے داری عمران خان کی حکومت پر عائد نہ کی جائے تو میں سوال کرتا ہوں کہ پھر کس پر کی جائے۔ عمران خان کے دور میں ہی ڈالر126سے 189 روپوں پر پہنچا اور اب 200 پر ہے، جب 200پر پٹرول کی قیمت 210 روپے ہے تو یہ بات سمجھنے والی ہے کہ126 پر یہ 140 کے آس پاس ہوتی۔ اب بھی اگر ڈالر واپس آجائے تو پٹرول کی روپوں میں قیمت کی واپسی ہوجائے گی، ڈالر کی واپسی کا سفر شروع ہو گیا ہے۔ میں اس فیصلے کو سیاسی تناظر میں بھی دیکھ رہا ہوں کہ شہباز شریف اور ان ساتھیوں نے اپنی پارٹی کے اندر بھی ایک جنگ جیتی ہے۔ یہ فیصلہ بتا رہا ہے کہ اب اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی ورنہ شہباز شریف ، مریم نواز کے چاچو ضرور ہیں مگر اتنے چوچے ہرگز نہیں کہ فوری طور پر انتخابات میں جا رہے ہوتے اور یہ سخت فیصلے بھی لے رہے ہوتے۔ گمان ہے کہ سخت فیصلوں کا سلسلہ نئے بجٹ کے نفاذ تک جاری رہے گا اورا س کے بعد ایک برس ان سخت فیصلوں کی بدولت ملنے والے معاشی استحکام کے ذریعے ملک اور سیاست کو مضبوط کیا جائے گا لہٰذا حکومتی فیصلے منطقی ہیں اور ا مکانی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان فیصلوں پر مقتدر حلقے بھی آن بورڈ ہیں۔
جی ہاں، مجھے یہ ساری باتیں سمجھ آتی ہیں، میرے پاس ان تمام سیاسی ، معاشی اور انتظامی اقدامات کے جواز اورجواب موجود ہیں مگر اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ ایک غریب آدمی جس کی آمدن بیس پچیس ہزار سے پچاس ہزار تک ہے، وہ اپنا گھر کیسے چلائے گا۔