اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف کیس کی پہلی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا ہے جس میں نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ بھی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ میں دائرفوجی عدالتوں کیخلاف درخواست کی بائیس جون کو ہونے والی پہلی سماعت کے تحریری حکمنامہ میں جسٹس سردار طارق مسعود نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نوٹ سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، بنچ کی تشکیل سے قبل مجھ سے مشاورت نہیں کی گئی، تعجب ہے ایک دن پہلے ایک درخواست گزار اعتزاز احسن نے چیف جسٹس پاکستان سے چیمبر میں ملاقات کی اور اگلے دن اسی درخواست گزار کی درخواست سماعت کو کیلئے مقرر کردیا گیا۔
نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ بنچ سے تشکیل سے قبل میرے دستیاب ہونے کا بھی نہیں پوچھا گیا۔ کئی سال سے زیر التوا مقدمہ کے سائل یا درخواست کو بھی یہ اجازت حاصل ہوگی کہ وہ چیمبر میں چیف جسٹس سے ملاقات کرکے مقدمہ فکس کروائے؟ میں انتظار میں تھا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس کا جلد فیصلہ کرے گی، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184کی شق تین کے مقدمات کی سماعت کیلئے تین رکنی کمیٹی نے فیصلہ کرنا ہے۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے نوٹ میں لکھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت تین رکنی کمیٹی کا میں رکن ہوں، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کالعدم قرار دیکر ہی تین رکنی کمیٹی کے طریقہ کار کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے، جب پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو معطل کیا گیا میں بھی ہچکچاہٹ کا شکار تھا کہ مقدمات نہ سنوں، میں ایک ایسے بنچ کی سربراہی کر رہا تھا جس میں روزانہ تیس سے پینتیس فوجداری مقدمات سماعت کیلئے مقرر ہوتے ہیں اور میرے سامنے ایسے پاکستانی شہریوں کے مقدمات سماعت کیلئے مقرر ہوئے جو جیلوں میں فیصلوں کے منتظر ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ میں نے پاناما فہرست میں شامل 436 افراد کیخلاف کیس اس لیے سنا کہ وہ درخواستیں پانچ رکنی لارجربنچ قابل سماعت قرار دے چکا ہے، میں نے وہ کیس اس لیے ایک ماہ کیلئے ملتوی کیا کہ مجھے توقع تھی پریکٹس اینڈ کیس کا فیصلہ ہو جائے گا۔
نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں کے کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والے چاروں درخواست گزار بظاہر نہ حراست میں ہیں نہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں، ان چاروں درخواست گزاروں نے نو مئی کے واقعات میں جی ایچ کیو، پی اے ایف اور حساس مقامات پر حملے نہیں کیے، عمومی طور پر کسی قانون کو چیلنج کرنے کا فورم ہائیکورٹ بنتا ہے جبکہ درخواست گزاروں نے براہ راست سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ ہر انفرادی شخص کو سن کر درخواست پر علیحدہ فیصلہ کیا جانا چاہیے۔ میں حیران ہوں کہ نو رکنی بینچ اس مفروضے پر تشکیل دیا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو کالعدم قرار دے دیا جائے،اگر ایکٹ کو کالعدم قرار نہیں دیا جاتا تو متاثرہ فریق کی اپیل پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن پانچ کے تحت لارجر بینچ سنے گا،اس کیس کے فیصلے کے خلاف اپیل سننے کے لیے کم از کم دس رکنی بینچ کی تشکیل ناممکن نظر آتی ہے،موجودہ صورتحال میں کسی بھی متاثرہ فریق کی جانب سے دائر کی گئی درخواست ناقابلِ سماعت ہوگی۔
انہوں نے لکھا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں بینچ میں بیٹھنے سے انکار نہیں کر رہا،اس لیے میں نے بینچ کی دوبارہ تشکیل کے حکمنامہ پر دستخط نہیں کیے،میرا مؤقف ہے کہ موجودہ کیس کی سماعت سے پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے خلاف کیس کا فیصلہ کیا جائے،اس لیے میں اپنا آزادانہ نوٹ لکھ رہا ہوں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ میں بینچ میں اپنے کچھ تحفظات کے ساتھ بیٹھا ہوں جنہیں پہلی سماعت پر سامنے لانا چاہتا ہوں،احترام کے ساتھ گزارش ہے کہ ماضی قریب میں فل کورٹ کی بجائے چند ججز پر مشتمل اسپیشل بینچز تسلسل کے ساتھ تشکیل دیئے گئے۔ مفاد عامہ کے ان مقدمات کے عوام کی سماجی، سیاسی، معاشی زندگیوں اور بنیادی حقوق پر انتہائی گہرے اثرات ہوتے ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ میری رائے میں فل کورٹ تشکیل نہ دینے سے عدلیہ کمزور ہوئی اور اس کے فیصلے بے وقعت ہوئے، موجودہ کیس اور اس کے ممکنہ اثرات سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ سطح جوڈیشل سکروٹنی کی ضرورت ہے، عوامی مفاد کے حامل کیسز میں تمام ججز کی اجتماعی دانش سے بہتر فیصلے کیے جا سکتے ہیں جن سے سپریم کورٹ پر عوامی اعتماد میں اضافہ ہوگا‘۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ ’میری رائے میں جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کیس کا فیصلہ نہیں کرتی آرٹیکل 184(3) کے تمام مقدمات فل کورٹ کو سننے چاہیں، سپریم کورٹ کی سالمیت اور اتھارٹی کے تحفظ کے لیے چیف جسٹس پاکستان سے درخواست کی تھی کہ ملک میں موجود تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دی جائے۔
نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ ’چیف جسٹس سے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دے کر ہر جج کو فیصلہ کرنے دیا جائے کہ وہ کیس سننا چاہتے ہیں یا نہیں، لیکن معزز چیف جسٹس نے میری درخواست کو تسلیم نہیں کیا، اپنے حلف کے تحت آئینی ذمہ داری کی ادائیگی اور عوام کے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے بینچ میں بیٹھنے کے علاؤہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔