کسی قوم کو تب تک غلام بنانا ممکن نہ ہے جب تک وہ ذہنی طور پر غلامی قبول نہ کرلے، یہی کچھ تاج برطانیہ نے تعلیم یافتہ مغل ہندوستان کواَن پڑھ برٹش ہندوستان بنانے کیلئے بھرپور منصوبہ بندی کی اورلارڈ میکالے جیسے کینہ پرورمنصوبہ سازوں اور اس کے پیروکاروں ،لنڈے کیلبرلز، مغرب زدہ مؤرخوں ودانشوروں کے جھوٹ کے ذریعے نوجوانوں میں احساس کمتری وذہنی غلامی کا یہ گمراہ کن تصور عام کردیا کہ انگریزوں کے آنے سے قبل پورابرصغیر جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ درحقیقت سترہویں صدی کے آخرتک مغلیہ سلطنت ہند کوسونا کی چڑیا کہا جاتاتھااورصنعتی مرکز اور دنیا کی جی ڈی پی کا 25% مصنوعات تیار کرنے کی وجہ سے امیر ترین سلطنت تھی۔ عمارتیں، سڑکیں، سرائے، پل، نہریں جدید انجینئرنگ کا شاہکار تھیں۔ 1798تک ہندوستانی تعلیمی نظام دنیا کا سب سے بہترین اور اعلی پائے کا تعلیمی نظام مانا جاتاتھا، جس میں تمام فکری، مابعدالطبیعاتی اور سائنسی علوم پڑھائے جاتے تھے جن کا تصور بھی یورپ میں نہیں ہوتا تھا۔زمین زرخیز، وسائل سے مالامال اورلوگ محنتی وہنرمند تھے۔یہاں پیدا ہونے والے سوتی کپڑے اور ململ کی مانگ دنیا بھر میں تھی،جہاز رانی اور سٹیل کی صنعت میں بھی ہندوستان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔تہذیبی ارتقا کے مراکزدلّی اورلاہور کی بنیاد 1192ء سے 1765تک ساڑھے پانچ سوسال میں رکھی گئی جس نے ایسے ہندوستان کو جنم دیا جس کی 90 فیصدآبادی پڑھی لکھی تھی۔شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کا ہندوستان اپنے دور میں آباددنیا کی تہذیبوں میں علم کاایسا درخشندہ ستارہ تھاجہاں ملک بھر سکولز،کالجزاور یونیورسٹیز لوگوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہی تھیں۔اس عظیم علمی میراث کی گواہی کسی مسلمان مؤرخ نے نہیں بلکہ انگریز حملہ آوروں نے دی۔ہندوستان کے عظیم نظام تعلیم بارے برطانوی پادری ولیم ایڈم نے اپنی تین رپورٹس میں لکھا کہ بنگال اور بہار کے تعلیمی نظام میں تقریبا ایک لاکھ سکولز ہیں جو بنیادی تعلیم فراہم کرتے ہیں اورسکول جانے کے قابل ہر 30طلبا کیلئے ایک سکول میسر تھااور دو قسم کے سکولز تھے، ایک میں رسمی وجدید تعلیم دی جاتی تھی اور دوسرے گھریلو سکولز جہاں ایک اْستاد یا اتالیق پورے خاندان کو ایک ساتھ بٹھا کر تعلیم دیتا ہے۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد سے پہلے پورا خطہ علم و آگہی کا ایک گہوارہ تھا۔ جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب The Discovery of India میں لکھتا ہے کہ مغلوں کے ہندوستان میں ہر شخص پڑھا لکھا تھا بلکہ پورے ملک میں کالجزاور یونیورسٹیز کا جال بچھا ہوا تھا جہاں اپنے زمانے کی اعلیٰ ترین تعلیم دی جاتی تھی۔بنگال میں انگریزسے قبل تین بڑے تعلیمی مراکز تھے دلی کا مدرسہ رحیمیہ، خیرآباد کا جدید سائنسی علوم کا سکول اورلکھنؤ کا فرنگی محل جنکے زیرِسایہ بے شمار تعلیمی ادارے ان کے نصاب کے مطابق تعلیم دیتے تھے۔رپورٹ Survey of indigenous education in Madras presidency کے مطابق علاقے میں 12,498 سکولزتھے جن میں 1,88,650 طلبہ زیر تعلیم تھے۔ ایسا ہی سروے بمبئی کے علاقے میں بھی ہوا اور وہاں بھی 14350 سکولزکی تصدیق ہوئی۔ پنجاب بارے گورنمنٹ کالج لاہور کے پہلے پرنسپل گوٹلب ولیم لائٹنزکی کتاب History of indigenous education in Punjab میں 31400 سکولزکی تصدیق اور اعلی معیار تعلیم کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔ برطانوی ادیب وناول نگار ایڈورڈ تھامسن کے مطابق مشہور بنگالی ناول نگار سرات چندر چیٹرجی کے ناول ’دیوداس‘کے دو لاکھ نسخے فروخت ہوئے جو معاشرتی سطح پر اعلی ادب کا ثبوت تھا۔ بنیادی تعلیم کے ساتھ پورے1820 ء سے 1830 ء تک بمبئی صوبے کے مغل نظام تعلیم کا سروے کیا گیا، جسکے مطابق صرف احمد نگر میں 16 بڑے کالج موجود تھے اور پونا شہر میں 164 کالج اعلیٰ تعلیم کیلئے مخصوص تھے۔ جبکہ پورے صوبے بمبئی میں 222 بڑے کالج اور یونیورسٹیاں موجود تھیں۔ یہی حال مدراس کے علاقے کا تھا جہاں اعلی تعلیم کے لیے 1,101 کالج موجود تھے۔ سب سے زیادہ کالجز279 راج مندر میں تھے جبکہ ترچن لوبائی میں 173، بنگلورمیں137 اورتنجور میں109 کالجزتھے، جن میں طلبہ کو قانون، فلکیات، فلسفہ، شاعری، جہاز رانی، طب، فن تعمیر اور آلاتِ حرب بنانے کے علوم سکھائے جاتے تھے۔ کروشیا کے ادیب فراپاولینو لومیونے 1798 میں مغلیہ تعلیمی نظام کا جو نقشہ کھینچا ہے، اسکے مطابق یہ اپنے دور میں دنیا کا سب سے بہترین اور اعلیٰ پائے کا تعلیمی نظام تھا، جس میں ایسے تمام فکری، مابعدالطبیعاتی اور سائنسی علوم پڑھائے جاتے تھے جن کا تصور بھی یورپ میں نہیں ہوتا تھا۔
مسلم بادشاہوں کے برصغیر میں آنے سے قبل تعلیم صرف برہمنوں اور شاہی خاندانوں تک محدود تھی،لیکن مغلوں کے نظام تعلیم نے ہر رنگ اور نسل کے بچے کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کردیا۔ انگریزوں کے بنگال میں ذات پات کے حوالے سے سروے کے مطابق 1,75,089 ہندو طلبا میں صرف 24 فیصد برہمن نسل کے تھے، جبکہ 19,669 ویش اور 85,400 شودروں کے بچے تھے۔ ٹیپو سلطان کے میسور کے سکولز میں 65 فیصد شودر بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ یہ ان علاقوں کا حال ہے جو دلّی دربار سے دور تھے، جیسے بنگال، بہار، اڑیسہ، مدراس،میسور، پنجاب وغیرہ، یوں پورا ہندوستان ایک مربوط تعلیمی نظام سے منسلک تھا۔ یہ وہ دور تھا جب برطانیہ کا نظام تعلیم سولہویں صدی سے اٹھارہویں صدی کے وسط تک ایسے مضامین سے نا آشنا تھاجو ہندوستان میں پڑھائے جاتے تھے۔ اے ای دوبز (A. E. Dobbs) کی 1920 ء میں چھپنے والی کتاب (A Short History of Education)اور آکسفورڈ کمیشن کی رپورٹ جو 1852 ء میں شائع ہوئی،کے مطابق آکسفورڈ میں بھی طبقاتی نظام تعلیم رائج تھا۔ پورے برطانیہ میں اٹھارہویں صدی تک صرف 500 گرامر سکول تھے اوران میں بھی تعلیم صرف ایلیٹ نسل تک مخصوص تھی۔1780 ء میں سنڈے سکول تحریک شروع ہوئی ، جس نے عام آدمی کو تعلیم کے حق کیلئے آواز اٹھائی۔ اسکے نتیجے میں 1802 ء میں Peel's Act آیا جسکے تحت تعلیم کا جوطریقہ شروع کروایاوہ مغلیہ ہندوستان کے اتالیق سسٹم سے مستعار لیا گیا تھا۔ جس دور میں ہندوستان میں لاکھوں سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کام کر رہے تھے،اسوقت 1801ء کے انگلینڈ میں صرف 3,363 سکولز تھے۔مغل نظام تعلیم دین و دنیا دونوں علوم کا احاطہ کرتا تھا۔ تفسیر اور حدیث کے ساتھ ساتھ منطق، فلسفہ، علم ریاضی، جیومیٹری ، الجبرا، علم الہندسہ، طب ،گرامر، ادب اور فن تعمیرات پڑھائے جاتے تھے۔ ان مدارس سے ایک ایسی نسل برآمد ہوتی تھی جو ہندوستانی سول سروس ،عدلیہ، صحت، تعلیم اور تعمیرات جیسے تمام شعبوں میں اپنی کارکردگی دکھاتی تھی اور جو مذاہب کے علم سے بھی آراستہ ہوتی تھی۔
1835میں گورنر جنرل لارڈ ولیم بنٹیک نے انگریزی کوسرکاری طور پر ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے نافذ کر دیا اور 1840 ء میں سرکاری نوکریوں کیلئے انگریزی لازمی قرار دے دی گئی۔1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریزی لازم ہونے اورلارڈ میکالے کے غلامی کے نظام تعلیم کے آنے کی وجہ سے مغلوں کا اتالیق اورسکولزسسٹم ختم کر دیا گیا تھا اور اسکی جگہ چند انگلش میڈیم سکولوں اور کالجوں نے لے لی جس سے صرف 50 سالوں میں برصغیر کی تین نسلیں جہالت کے سمندر میں ڈوب گئیں۔1857ء میں جو ہندوستان انگریز کو ملا وہ90 فیصد خواندہ اور پڑھا لکھا تھا مگر جب انگریز 1947 میں اسے چھوڑکر گیا تو یہ 88فیصد اَن پڑھ اور صرف 12 فیصد پڑھا لکھا رہ گیا تھا۔یوں انگریزوں نے مغلوں سے ایک پڑھا لکھا ہندوستان لے کر اسے مکمل طور پر ان پڑھ بنا دیا۔یہ ہے حقیقت انگریز نوآبادیاتی سامراج استعمار کی ترقی اورلارڈ میکالے کے غلامی کے نظام تعلیم کی! ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی زبان اردو اوراپنے مثالی روایتی نظام تعلیم کی طرف واپس آیا جائے اور ایک ہی نظریہ علم کے تحت دینی ودنیاوی علوم اکٹھے سیکھنے چاہئیں جس نے پورے ہندوستان کو صدیوں تک سوفیصد شرح تعلیم دی تھی،تاکہ ماضی کی عظمت رفتہ کی بنیاد پر اپنے مستقبل کی نئی عمارت کی تعمیرکی جائے۔