فوج میں فائرنگ رینج پہ قوانین و ضوابط کی پابندی ضروری اور اہم ذمہ داری ہے۔یہاں پر ہونے والی فائرنگ کے دوران کرنل شیر سارا دن کڑی دھوپ میں گزار دیتے۔ جب وہ اپنی پارٹی کو تیار کرواتے تو کچھ دوسرے لوگ بھی فائرنگ رینج پہ فائرنگ کی مشق کر رہے ہوتے۔ کرنل شیر فائر ختم کروا کرفوراََ ٹارگٹ کی طرف بھاگ کھڑے ہوتے، حالانکہ یہ حفاظتی اقدامات کے خلاف ہے۔ مگر وہ ہمیشہ کہتے؛
’’ماڑا جو گولی نہیں لگنی، وہ نہیں لگے گی اور موت اسی گولی سے ہوگی،جس پر امارا نام لکھا ہو گا‘‘
نام انسانی شخصیت کا عکاس ہوتا ہے، نقاش بھی، زندگی کے دائروں پہ یقینا اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بعض نام پہچان ہوتے ہیں اور کچھ نشان بن جاتے ہیں۔ نشان منزل بھی ہو سکتے ہیں۔ کرنل شیر بھی ایک ایسا ہی منفرد نام ہے۔ ایک ایسا نام جس کو بہادری اور جوانمردی کی علامت سمجھا جا تا ہے۔
اس بہادر سپوت نے جنوری1999ء میں خود کو لائن آ ف کنٹرول پر تعیناتی کے لئے پیش کیا۔ کارگل کی جنگ کے دوران 12این ایل آئی میں تعینات ہوئے۔ آپ نے پلٹون کمانڈر کے طور پر بے شمار خدمات سر انجام دیں۔کارگل جنگ کے دوران مشکل ترین چوٹیوں پر وطن کا دفاع کرتے ہوئے تاریخ رقم کر دی۔کارگل جنگ کے دوران کیپٹن کرنل شیر خان نے متعدد آپریشنز کی قیادت کی۔آپ نے دْشمن کے بہت سے حملوں کو پسپا کر کے انہیں بھاری نقصان پہنچایا۔ 5جولائی1999کو کیپٹن کرنل شیر اوراْن کے14ساتھیوں کو کاشف اور وکیل پوسٹ کے درمیان موجود مزاحمتی ناکہ بندی کو ختم کرنے کا مشن سو نپا گیا۔
اِس دوران کیپٹن کرنل شیر خان کو دشمن کی ایک اور مزاحمتی پوزیشن اور کاشف پوسٹ کی جانب بڑے حملے کی غرض سے آگے بڑھتی دْشمن کی سپاہ کی کثیر تعداد نظر آئی۔اِن سخت کٹھن حالات کے باوجود آپ نے اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے ہمراہ دْشمن پر بھرپور حملہ کر کے اْسے ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا۔ اِس جرأت مندانہ معرکے میں آپ دشمن کے سنائپر فائر کی زد میں آگئے اور 5 جولائی 1999کو شہادت کا تمغہ اپنے سینے پر سجا یا۔
پاک فوج کے اس جوان نے بھارتی فوج کو ایسا سبق سکھایا جو وہ کبھی نہیں بھلا سکے گی۔ اْن کا نام ہندوستان میں بھی خوف کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ آپ کی اِس دلیرانہ کارروائی نے دشمن کے قدم اکھاڑ دئیے اور اْسے بھاری نقصان اْٹھانا پڑا۔ ہندوستانی بریگیڈ کمانڈر بریگیڈئیر ریٹائرڈ مہندر پراتاب سنگھ نے آپ کی بے خوفی اور دلیری کا اعتراف اِن الفاظ میں کیا ’’اْن کی قیادت میں بھرپور جوابی حملوں نے ہمارے قدموں کو اْکھاڑ دیا تھا‘‘۔دن کی روشنی میں جوابی حملہ صرف شیر خان ہی کا کام تھا۔کیپٹن کرنل شیر خان نے اپنی ہمت، جرأت، بہادری اور بہترین حکمت عملی سے اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ دن کی روشنی میں دْشمن کی چوٹی (ٹائیگر ہل اور اردگرد کے ملحقہ پہاڑوں) پر بھرپور حملہ کیا۔اس حملے کی ایسی دہشت تھی کہ ہندوستان کی 8سکھ بٹالین کو اپنی دفاعی حکمت عملی کو مضبوط کرنے کے لئے اضافی نفری منگوانی پڑی۔کرنل شیر خان اس چوٹی کے حصول کے لئے آخری دم تک لڑتے رہے حتیٰ کہ جامِ شہادت کے وقت بھی اْن کی اْنگلی بندوق کے ٹریگر پر تھی۔ کیپٹن کرنل شیر خان کی دلیری اور بہادری کا بھرپور اعتراف کیا گیا تھا اور دْشمن کی طرف سے خط میں لکھا گیا کہ ’’کیپٹن شیر خا ن نے جس طرح خود اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مقابلہ کیا اْنہیں اس بہادری پر اعلیٰ اعزاز سے نوازا جانا چاہیے‘‘۔