5جولائی 1977ء جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔یہ وہ وقت تھاجب پاکستان پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان مذاکرات کے بعد عام انتخابات کا اعلان ہونے والا تھا۔جس کے معاہدے کی تفصیلات پی پی پی کی جانب سے حفیظ پیر زادہ ، کوثر نیازی اور نو سیاسی جماعتوں کی جانب سے پرو فیسر غفور احمد اور نواب زادہ نصراللہ خان ، اخباری نمائندوں کو بتانے جا رہے تھے کہ ہمارے مذاکرات کامیاب ہو چکے ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو دوبارہ عام انتخابات کرانے پر آمادہ ہوئے۔اس سے چند گھنٹے قبل ضیاء الحق نے ذوالفقارعلی بھٹو کا تختہ اُلٹ کر پاکستان کی قومی اسمبلی کے اتفاق رائے سے منظور شدہ آئین کو معطل کر دیااور اسمبلی کو تالے لگا دیے۔اور اس جنرل ٹولے نے آئین کو چند صفحات کہہ کر پھاڑ نے کا اعلان کرتے ہوئے اوراس کے بعدجنرل ضیاء الحق نے چیف جسٹس سپریم کورٹ یعقوب علی کو بھی رخصت کر کے اپنے کارِخاص چیف جسٹس انوارالحق کو بنا دیا۔ یہ تمام کارروائیاں ملک پر طویل عرصہ قبضے کی نیت سے کی گئی تھی۔اور اس کی منصوبہ بندی اس وقت شروع کی گئی تھی جب لاہور میں ایک غیر ملکی شخصیت نے بھٹو کو نشانِ عبرت بنانے کا کہا تھا۔جنرل ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں نے عا لمی سازش کا نام ’’آپریشن فئیر پلے‘‘ رکھا ۔مگر یہ ایسا’’فاؤل پلے‘‘ تھا ۔جس میں ترقی پذیر ممالک کی قیادت کا قتل کامنصوبہ تھا۔اور تاریخ چیخ چیخ کر اس کی گواہی دے رہی ہے۔ شاہ فیصل قتل کرایا جا چکا تھا۔ بھٹو کے خلاف ’’آپریشن فاؤل پلے‘‘شروع ہو چکا تھا۔یہ 3 ستمبر 1977ء کا دن تھا۔جب ذوالفقار علی بھٹو کو احمد رضا قصوری کی جانب سے محمد احمد قصوری کے قتل کی ’’ایف آئی آر‘‘میں گرفتار کر لیا گیا ۔جو 1975ء میں درج کی گئی تھی۔اس مقدمے میں فیڈرل سیکیورٹی فورس کے معذور سر براہ مسعود محمود اور ایک ملازم غلام حسین لا کھانی کو سرکاری (سلطانی گواہ)کے طور پر پیش کیا گیا ۔ مسعود محمود مارشل لاء کے قید میں تھے۔اور دورانِ حراست اس سے سلطانی گواہ بننے کاکہا گیا۔جس کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہ تھی۔ بلکہ یہ تو سارا کیس جعل سازی اور سازش کا پلندا تھا۔
یہ 4 اور 5 جولائی 1977ء کی درمیانی شب تھی۔شاہنواز اپنے کمرے میں جا چکے تھے اور محو خواب تھے۔میر مر تضیٰ کے دوست ان کے بیڈ روم
میں بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے کہ دور سے ایک نسوانی آواز.. میر ،میر ..... کہتی ہوئی قریب آتی گئی ۔اچانک بیڈ روم کا دروازہ کھلااور صنم بھٹو داخل ہوئیں ۔ان کے پیچھے پیچھے بھٹو صاحب کا معتمد ملازم نور محمد مغل تھا ۔صنم نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا،’’مسلح افراد نے اقتدار اور حکومت پر قبضہ کر لیا ہے‘‘ ۔
ٓٓاس نے مختصراً تفصیل بتائی کہ کس طرح وزیراعظم ہاؤس کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے۔ اس دوران شاہنواز بھی آگئے۔ابھی یہ باتیں اور اس کے مضمرات پر بات ہو رہی تھی کہ پھر بیڈ روم کا دروازہ کھلا اور اچانک کمرے میں بھٹو صاحب داخل ہوئے۔ وہ اس وقت شب خوابی کے گاؤن میں ملبوس تھے۔بیگم بھٹو ان کے ہمراہ تھیں۔بھٹو صاحب کے چہرے پر انتہائی سنجیدگی تھی اور وہ کسی گہری سوچ میں تھے،وہ کچھ دیر خاموش کھڑے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے میر مرتضیٰ اور شاہنواز کو ہدایات دینا شروع کر دیں جن کے مطابق دونوں کو ضروری سامان پیک کر کے صبح کراچی چلے جا نا تھا۔
بھٹو صاحب کچھ دیر کمرے میں موجود رہے۔ بچوں سے باتیں کر تے رہے۔ریاست اور سیاست کے جھمیلوں سے آزاد بھٹو پھر اپنے میر اور اپنی صنم کے درمیان آنے والے پر آشوب دور کے لیے کمر کس رہا تھا ۔اقوام عالم اور اس ملک کے غریب عوام ۔راولپنڈی میںہونے والے اس ڈرامے سے ہنوز بے خبر تھے۔جب چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا۔سیاہ بادلوں سے ٹمٹماتا یہ ستارہ اس وقت بھی اسی آن سے چمک رہا تھا۔
بھٹو صاحب نے بچوں کو چند نصیحتیں کیں۔ کیوں کہ بھٹو صاحب کا طریقہ کار رہا تھا کہ جب بچے یکجا ہوتے تو ان کی ماضی کے واقعات کے حوالے سے تر بیت کرتے رہتے تھے اور بچوں سے دوری کی شکل میں اکثر وہ انہیں بذریعہ تحریر حالات سے آگاہ رکھتے تھے۔
1970ء میں انہوں نے مشرقی پاکستان کے حالات پر محترمہ بینظیر کو ایک طویل خط لکھا جو اس وقت ہاورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں ۔بعد میں یہی خط ان کی کتاب ’’عظیم المیہ‘‘ ((THE GREAT TRAGEDY کی بنیاد بنا، جو آج تاریخ کی امانت ہے۔اسی طرح ضیا دور میں وہ میر مرتضیٰ کو سیاسی اور خاندانی حالات پر ہدایات دیتے تھے۔میر مرتضیٰ اس ان کی ہدایت ہی کے مطابق ملک سے باہر تھے اور لندن میں SAVE BHUTTO COMMITTEE کے ذریعے بھٹو صاحب کی رہائی کے لیے بین الاقوامی مہم چلا رہے تھے۔ایسے ہی ایک خط میں انہوں نے میر مرتضیٰ کو تحریر کیا تھا:ـ میرے بعد تم میری قبا پہنو گے ۔اس تمام تربیت کا مقصد یہ تھا کہ ان کے بچوں کہ ان کے دوستوں کی رفاقتوں کا اندازہ رہے اور ان کے مکیں گاہوں سے آگاہی ہو، جہاں سے نشتر بر سیں گے۔اس کے بھٹو صاحب اور بیگم صاحبہ مین ہاؤس چلے گئے۔بھٹو صاحب نے مین ہاؤس سے منسلک لان کی تمام بتیاں روشن کرنے کا کہا اور فیملی کے ساتھ بیٹھ کر کافی نوش کی۔1975ء کے بنگلہ دیش کے واقعہ کے بعد جب وہاں وزیراعظم اور تمام اہل خاندان کو نشانہ بنایا۔بھٹو صاحب نہیں چاہتے تھے کہ مزاہمت یاکسی اور عذر کی بنیاد پر ضیا ٹولے کو یہ موقع دیا جا ئے۔
اس دوران بھٹو صاحب کو مشورہ دیا گیا کہ وزیراعظم ہاؤس چلے جائیں یافرارہو جا ئیں (کیوں کہ وہاں ایسے انتظامات موجود تھے) لیکن بھٹو صاحب نے اس پر عمل کرنے سے صاف انکار کر دیا گیا کیوں کہ انہوں نے تاریخ کے ہاتھوں مرنے کے بجائے، ایک غاصب ڈکٹیٹر کے ہاتھوں مرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔