نجانے21 سالہ کالج طالبہ کے کیا جذبات ہوں گے، جب وہ دیوار پر آویزاں اپنے والد مرحوم کی تصویر اُتار رہی ہو گی،بکھرے گھریلو سامان میں سے تصویر کا انتخاب والد کی محبت میں کیاجس نے اس گھر کی چھت فراہم کی تھی جسے گرانے کے لئے باہر بلڈوزر کھڑا تھا،اس کے آپریٹر نے صرف اتنی ہی مہلت دی کہ مذکورہ تصویر اُتاری جاسکے، آسودہ خاک والد کو کیا علم کہ بچوں کے لئے چھت اسکی عمر بھر کی کمائی کاثمر تھا وہ بھی اب عدالت عظمیٰ کے حکم سے چھینی جارہی تھی،جس میں طالبہ ا ہل خانہ کے ساتھ کئی سال سے مقیم تھی۔
کراچی کے عوام کو پہلی دفعہ اس کرب سے نہیں گزرنا پڑا ہے،یہ سلسلہ تو پچاس کی دہائی سے جاری ہے لیکن اس میں شدت اس وقت آئی،جب لینڈ مافیاز نے لیز کے نام پر وہاں کے عوام کو لوٹنا شروع کیا ہے،سرکاری اراضی کی لوٹ کھسوٹ جب حد سے بڑی تو قانون کو حرکت میں آنا پڑا، متاثرین اب سوال اٹھاتے ہیں کہ جب متاثرہ علاقہ جات میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ عمارات تعمیر کی جارہی تھیں،یہ فریضہ سرکاری اداروں کے تعاون انجام دیا جارہا تھا،اس وقت ریاستی اداروں نے کیوں مجرمانہ خاموشی اختیار کی، اب ان علاقہ جات میں آپریشن کیا جارہا ہے،جہاں غیر قانونی سرکاری کاغذات کے ذریعہ لیز پر اراضی مکینوں کو دی تھی اس وقت اداروں نے کیوں چپ سادھ لی گئی؟ کیا ان دستاویزات کی فراہمی سرکاری اداروں سے نہیں ہوئی تھی،متاثرین کو لا علم کیوں رکھا گیا،اس مشق کے نتیجہ میں کن کن افراد، شخصیات، اداروں نے اس بہتی گنگامیں ہاتھ دھوئے ہیں، معزز عدالت عظمیٰ دھندے میں ملوث شرفاء کے نام منظر عام پر لا کران کو قرار واقعی ساز کب دے گی، یا گھروں کو ملبے کے ڈھیر میں بدلنے ہی کو کافی سمجھا جائے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر شہری کے ذہن میں آتے ہیں۔
معزز عدالت نے ناجائز قابضین سے سرکاری اراضی وا گزار کرانے کے لئے اس وقت کا انتخاب کیوں کیا ہے جب عوا م کرونا سے شدید پریشان ہے بے روزگاری اور مہنگائی انتہا کو چھو رہی ہے،سابق دارالخلافہ گزشتہ چند دہائیوں سے لینڈ مافیاز کی زد میں ہے، سنجیدہ حلقے اس پر سرکار کو متوجہ بھی کرتے رہے ہیں،اخبارات بھی دہائی دیتے رہے ہیں،جماعت اسلامی کراچی کے امیر اور
متحرک شخصیت حافظ نعیم الرحمان نے اپنی پریس کانفرنس میں سوال اٹھایا ہے کہ جب وہ اِن قابضین کے خلاف صدائے احتجاج بلند اورمافیاز کیخلاف دہائی دے رہے تھے تو اس وقت بقول اِنکے کوئی قومی ادارہ لینڈ مافیاز کے کارروائی کرنے کو تیار نہ تھا یہ وہ عہد تھا جب کراچی کے میدانوں،پارکوں پر دن کی روشنی میں قبضہ کرایا جارہا تھا، سرکاری اراضی اونے پونے بیچی جارہی تھی، خوف کے مارے کسی ادارہ نے اس سیاسی نما قبضہ مافیاز کے خلاف کوئی ایکشن ہی نہ لیا،اگر اس وقت قانون حرکت میں آتا تو آج متاثرین کو در بدری کا رنج نہ اٹھانا پڑتا۔
ترقی یافتہ مہذب ممالک میں کوئی طاقتور سیاسی یا غیر سیاسی شخصیت یہ تصور بھی نہیں کر سکتی کہ وہ سرکاری اراضی پر قابض ہو کر اسکو فروخت کر کے اپنی جیب گرم کرے،وہاں تو اپنے مکان کی بودوباش کی بھی ممانعت ہے تاکہ اس فعل سے کسی پڑوسی کی دل آزاری نہ ہو،مقامی حکومت ہی شہری کو فراہمی گھر کی ذمہ دار سمجھی جاتی ہے۔
ہمارے ہاں تو باوا آدم ہی نرالہ ہے، یہاں جس ادارے کا جی چاہا اس نے اپنے ملازمین کے لئے اپنی ہی ہاؤسنگ سکیم لانچ کر دی، حتیٰ کہ نیشنل سکیورٹی کے جید ادارے اس دوڑ میں شریک ہو گئے، جس نے سماج میں ایک نئے طبقاتی کلچر کو فروغ دیا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، اس کلاس نے ہاؤسنگ اینڈ فیزیکل پلاننگ ڈیپارٹمنٹ جیسے قومی ادارہ کو ناکام کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، جن کے فرائض منصبی میں بڑھتی ہوئی آبادی کے اعتبار سے گھروں کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا، مقامی حکومتیں ٹاؤن پلاننگ کے ذریعہ ہاؤسنگ اور دیگر بنیادی مسائل حل میں معاونت کرتی تھیں، ہماری ریاست میں دونوں کو مفلوج کر دیا گیا ہے، جس کا فائدہ لینڈ مافیاز اٹھا رہا ہے، شہروں کے علاوہ دیہاتوں میں بھی سرکاری اراضی کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو کراچی میں چائنا کٹنگ کے ساتھ ہوا ہے۔ بڑے قومی اداروں کی اراضی بھی اس مافیاز کے شر سے محفوظ نہیں رہی ہے۔اس وقت بھی سادہ لوح شہریوں کی بڑی تعداد ان کے ہاتھوں لٹ چکی ہے، بہت سی بیوگان اس غم میں زندگی کی بازی ہار چکی ہیں،قانون میں سقم،مافیاز کی سیاسی شخصیات تک رسائی، افسر شاہی کی معاونت اس دکھ کو اور بھی گہرا کر دیتی ہے۔
ابھی کل ہی بات ہے کہ اس سرکار کی ناک کے بالکل نیچے رنگ روڈ راولپنڈی کا سکینڈل منظر عام پر آیا تھا جس میں سیاسی کے علاوہ غیر سیاسی قدآور شخصیات کے ملوث ہونے کی اطلاعات گردش کرتی رہی ہیں،جس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے،کہ بعض اداروں نے اِن تمام افراد کو اس طرز کی ہاؤسنگ سکیموں تک رسائی دی ہے جو بلیک منی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے، اس ہنر سے سماج میں فوری دولت کمانے کا شارٹ کٹ طریقہ دریافت کر لیاگیا ہے، سابق آمر مشرف کے دور میں لینڈ مافیاز کی حوصلہ افزائی کی گئی، نو دولتیوں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیئے اور راتوں رات زرعی اراضی کو ملیا میٹ کر کے رہائشی کالونیاں بنائی جانے لگیں، طویل مدت گزرنے کے باوجود وہاں نہ تو بنیادی سہولیات فراہم کی گئیں نہ ہی خریداروں کو اقساط میں وصول رقم وآپس کی گئی، بہت سو کو عدالت کے در پر دستک دینا پڑی، اس کے اثرات اب نمایاں ہو رہے ہیں، زرعی ملک کو کھانے کی اشیاء تک درآمد کرنا پڑ رہی ہیں۔
شائد ہماری ہی دنیا کی واحد ریاست ہے جہاں جب چاہیں سکنی، رہائشی، کمرشل زمین کا سٹیٹس رات کی تاریکی اور دن کی روشنی میں کسی بھی سرکاری اہلکار کی مٹھی گرم کر کے بدلا جاسکتا ہے۔ چند ایام کے عدالتی نوٹس پر کراچی کی جنتا کواپنے گھروں سے بے دخل ہونا پڑا ہے، سابق روایت تو یہی ہے کہ متاثرین کی غالب تعداد اس مالی امداد سے ہمیشہ محروم رہتی ہے جو سرکار کی طرف سے اِنکی اَشک شوئی کی خاطر عطا کی جاتی ہے،ہمارے ہاں قیام پاکستان کے ساتھ ہی اس مافیاز نے نوزائیدہ مملکت نے قدم جما لئے تھے اور بہت سے مہاجرین کو اپنے وراثتی حق ہی سے محروم کردیا تھا،جن میں سے کچھ آج بھی در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
مافیاپر دست شفقت رکھنے کے لئے اس کے بڑے ہمدرد پیدا ہو گئے ہیں، یہ اتنا طاقتور ہو گیاہے کہ تمام ریاستی اداروں کو خرید نے کی خواہش رکھتا ہے، ان حالات میں متاثرین کراچی عدالت عظمیٰ سے کیا شکوہ کر سکتے ہیں،کیونکہ اس نے اِس وقت انگڑائی لی ہے جب لینڈ مافیاز کی باقیات زیادہ تر زیر زمین جا چکی ہے اور کچھ سرکار کی گود میں بیٹھ کر ”انجوائے“ کر رہی ہے،زیر تعلیم طالبہ کو گھر کی چھت سے محروم ہو کر یہ اندازہ تو ضرور ہوا ہو گا کہ ہمارا معاشرہ قطعی کتابی نہیں ہے۔یہاں نزلہ ہمیشہ کمزور پر ہی گرتا ہے۔
عدالت عظمیٰ سے شکوہ
11:25 AM, 5 Jul, 2021