عمران خان نے طے کر لیا ہے کہ انھوں نے ملک میں ایک دن کے لئے بھی غیر یقینی کی فضا کو ختم تو کیا کم بھی نہیں ہونے دینا۔کچھ عرصہ پہلے تک میڈیا میں ان کا تاثر ایک معصوم سیاستدان کے طور پر پیش کیا جاتا تھا کہ جو امانت، دیانت اور صداقت کا دیوتا ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی معصوم اور سیدھے سادھے انسان تھے اور کہا جاتا تھا کہ ان کے اندر روایتی سیاست دانوں ایسی چالاکیاں نہیں ہیں اور یہی ان کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ ہیر پھیر اگر مگر کرنے والے انسان نہیں ہیں۔ ان کے ہاں گرے ایریاز نہیں ہیں بلکہ وہ ہر بات کو بلیک اینڈ وائٹ میں دیکھتے ہیں۔جب ان کی جوانی کے ایام کی کہانیاں بتائی جاتیں تو کہا جاتا کہ یہ سب پرانی باتیں ہیں لیکن اب خان صاحب بدل چکے ہیں۔ اس وقت بھی کہنے والے کہتے تھے کہ ایک ایسا شخص کہ جس نے ایک سیاسی جماعت بنائی اور پھر اس سیاسی جماعت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی ایسی لبرل جماعتوں کے بندوں کے ساتھ ساتھ نواز لیگ کے معتدل نظریات رکھنے والی نواز لیگ کے بندوں کو بھی اپنی جماعت میں لانے کا ہنر جانتا ہے اور اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے دائیں بازو کے مذہبی سوچ رکھنے والوں کے لئے بھی اپنے آپ کو قابل قبول بنانا اور طالبان ایسی انتہا پسند جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے والے عمران خان بھلا کس طرح سیدھے سادھے انسان ہو سکتے ہیں لیکن خان صاحب کے فین کلب والوں کے لئے ایسے دلائل کب اثر کرتے ہیں۔ جیسے جیسے معاملات کھلتے چلے گئے تو خان صاحب کی اصل شخصیت بھی کھل کر دنیا کے سامنے آتی چلی گئی۔ پتا چلا کہ خان صاحب نے معصوم کیا ہونا ہے بلکہ ان کے سامنے تو شاطر ترین سیاستدان بھی پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ جس طرح وہ جھوٹ بولتے ہیں اور بلا جھجک اور پورے یقین کے ساتھ بولتے ہیں اور جھوٹا بیانیہ بنانے کے فن میں جس حد تک وہ ماہر ہیں دوسرا کوئی تو ان کے پاس پھٹک بھی نہیں سکتا۔ یہی دیکھ لیں کہ جب سے ان کی مبینہ آڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں تو ان کے فین کلب والے تو ان آڈیوز کو جعلی قرار دینے کی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن خود خان صاحب نے ایک مرتبہ بھی ان آڈیوز کو جعلی قرار نہیں دیا اور اتوار والے د ن صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے اس بات کا بھی اقرار کیا ہے کہ جب ان سے جنرل باجوہ نے پوچھا کہ کیا وہ پلے بوائے رہے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ہاں وہ پلے بوائے رہے ہیں تو اب جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کر ان کی آڈیوز کی صفائیاں دے رہے تھے ان کا کیا بنے گا۔
گذشتہ دنوں خان صاحب نے معصومانہ فطرت کے تحت انتہائی سادگی کے ساتھ ٹیکنو کریٹ حکومت کا شوشہ چھوڑ کر ملک میں پھیلی بے یقینی کی فضا کو مزید گہرا دیا ہے۔ ٹیکنو کریٹ حکومت کی بات بھی کسی کو معلوم نہیں تھی۔ اس کی آمد بھی خاص خان صاحب کے قلب و ذہن پر ہوئی اور انھوں نے اپنے ہم خیال صحافیوں کے سامنے اس کا انکشاف کیا۔ اس حوالے سے جب حکومتی اتحاد سے پوچھا گیا تو وہ بھی حیرت زدہ ہو کر سوال پوچھنے والے سے پوچھتے رہے کہ ہمیں تو نہیں معلوم اگر آپ کو پتا ہے تو بتائیں لیکن میڈیا کو تو کوئی نہ کوئی شوشہ چاہئے اور پھر جب خود خان صاحب اس کا انکشاف کریں تو اس خبر نے کھڑاک تو کرنے تھے بس پھر کیا تھا بھیڑ چال شروع ہو گئی اور ہر طرف اس بات کے ڈھول بجنے لگے۔جہاں تک ٹیکنو کریٹ حکومت کی بات ہے تو اگر کسی کو یاد نہیں ہے تو اس کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ملک میں جب جب نگران حکومت بنی تو وہ بھی ایک قسم کی ٹیکنو کریٹ حکومت ہی ہوتی تھی اور1993میں معین قریشی کو تو امریکہ سے امپورٹ کر کے ایک ایسے شخص کو ملک کا وزیر اعظم بنا دیا گیا تھا جس کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ ہی نہیں تھا اور جب وہ وزیر اعظم بن گئے تو کیا کوئی اس بات کا یقین کرے گا کہ حکومتی ایجنسیوں کو ان کے والدین کی قبریں ڈھونڈنے کی ذمہ داری دی گئی تھی جنھوں نے بڑی کوشش کے بعد یہ کام سر انجام دیا تھا تو کیا ان کی نگران حکومت نے پاکستان کے سارے معاشی مسائل حل کر دیئے تھے اور جنرل ضیاء کے دور سے لے کر اب تک غلام اسحق خان، محبوب الحق، سرتاج عزیز، وی اے جعفری، حفیظ شیخ اور شوکت ترین اور پھر شوکت عزیز۔ یہ سب ٹیکنو کریٹ ہی تو تھے اور کیا کیا تجربے نہیں کئے گئے کہ شوکت عزیز کو باہر سے لا کر پہلے تو وزیر خزانہ بنایا گیا اور پھر ملک کا وزیر اعظم بنا دیا گیا تو کیا ان ادوار میں ملک کے اندر دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو گئی تھیں یا شیر اور بکری نے ایک ہی گھاٹ پر پانی پینا شروع کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف تک بھی 34سال تک سب غیر سیاسی حکومتیں تھیں تو کون سی ایسی معاشی پالیسی بنی کہ جس سے پاکستان کی معیشت کو چار چاند لگ گئے تھے حالانکہ ان ادوار میں چار چاند لگنے چاہئے تھے کیونکہ بوجہ ملک میں بوریاں بھر بھر کر ڈالر آ رہے تھے۔
اب بھی اگر تحریک انصاف کے دور میں معیشت کا ستیاناس ہوا ہے تو اصولی طور پر تو اس کا ذمہ انھی کو لینا چاہئے کہ جنھوں نے سو طرح کے جتن کر کے عمران خان کو وزیر اعظم بنانے جیسا عظیم کارنامہ انجام دیا تھا اور موجودہ حکومت نے آ کر اگر مشکل اور غیر مقبول معاشی فیصلے کئے ہیں تو ان کی تحسین کرنا تو دور کی بات ہے انھیں تو اتنا اختیار بھی نہیں دیا جا رہا کہ وہ ملک میں غیر یقینی کی فضا ختم کرنے کے لئے کوئی سخت اقدام ہی کر سکیں۔ کاش اب بھی ریاستی اداروں اور حکومت کے درمیان ایسی مثالی ہم آہنگی ہو اور سب اس طرح ایک پیج پر ہوں کہ جیسے تحریک انصاف کی حکومت میں تھے اور کہیں سے میڈیا کے لئے ایسے پیغام آئیں کہ اگلے چھ ماہ تک سب اچھا کی خبریں دینی ہیں تو ملک سے بے یقینی کی فضا ختم ہو تو یقین جانیں کہ کسی ٹیکنو کریٹ حکومت کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ ویسے اگر کسی کو فرصت ملے تو اتنا ضرور سوچے کہ موجودہ حکومت تو بقول خان صاحب کے امپورٹڈ حکومت ہے اور بیرونی سازش کے تحت اسے لانے میں امریکہ کا کردار ہے تو پھر اس حکومت کے بر سر اقتدار آتے ہی امریکہ کی آشیر باد سے آئی ایم ایف اور امریکی اتحادیوں کو اس حکومت کے صدقے واری جانا چاہئے تھا لیکن یہاں تو گنگا الٹی بہہ رہی ہے کہ جب سے یہ حکومت آئی ہے اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں اور آئی ایم ایف اس حکومت کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کر رہا ہے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ در حقیقت امپورٹڈ حکومت وہ تھی جسے ہٹایا گیا اور اب موجودہ حکومت سے کام نکلوانے کے بعد اس کو ہر طرح سے زچ کر کے مجبور کیا جائے گا کہ وہ ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام پر راضی ہو جائے تاکہ اس کے آتے ہی ہر طرف سے اچھا اچھا دکھنا شروع ہو جائے اور موجودہ حکومت کا حال مولا علی کرم اللہ وجہہ کے اس قول جیسا ہو کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے ڈرو۔