آج ذوالفقارعلی بھٹومقتول کاجنم دن ہے۔ پاکستان کا ایسا وزیر اعظم جس نے واقعی پاکستانی عوام کے دلوں پرراج کیا اور آج بھی بھٹو پاکستانی عوام کا مشترکہ عشق ہے۔پاکستانی سیاست کا جادوگر جس نے پہلی بار پاکستان کی سیاست کو اشرافیہ کے محلات سے لے کر گلی محلوں اورتھڑوں پر بیٹھا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے سیاسی یا نظریاتی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ 5 اپریل 1928 ء کو سرشاہنواز بھٹو کے گھر پیداہونے والا بھٹو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے درمیان کھڑا ہے۔آج بھی پاکستانی سیاست کے زمانے دو ہی ہیں قبل از بھٹو اور بعد از بھٹو۔ اُسے کسی عدالت نے صادق و امین قرار نہیں دیا تھا لیکن اُس کے بدترین مخالفین بھی اُس پرکسی قسم کی مالی یا جنسی بے ضابطگی کا الزام نہیں دھرتے۔بھٹونے پیدائش سے قتل تک ایک ہنگامہ خیز زندگی گزاری وہ مقبول بھی تھا اور محبوب بھی۔ابھی کل کی بات ہے جب ہم نے محترمہ شہید کو دفنایا تو سوگ میں ڈوبا پاکستان ذوالفقارعلی بھٹو سے محبت کی شہادت دے رہا تھا۔ آج اُس کے یوم پیدائش پرکیوں نہ اُن یادوں کو تازہ کیا جائے جن حالات میں یہ دانشور سیاست دان دنیا سے رخصت ہوا۔ 4 اور 5 جولائی1977 ء کی درمیانی شب رات ڈیرھ بجے فوجی دستے حرکت میں آئے جنہوں نے اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مقتول کی رہائش گاہ پر قبضہ کیا اور وزیر اعظم ہاؤس کی جانب جانے والی تمام سٹرکو ں کو خار دارتاروں سے بند کر دیا۔ 4 جولائی کی رات کو سردار قیوم نے قومی اتحاد کے رہنما کھانے پر مدعو کئے۔کھانے کے بعد مرکزی کونسل کا اجلاس ہوا جو رات ایک بجے کے بعد تک جاری رہا۔یہ اجلاس اپنی تمام تر بدمزگی کے باوجوداس اکثریتی تاثر کے ساتھ اختتام پذیر ہوا کہ ذوالفقا ر علی بھٹو کے ساتھ مذاکرات کے سلسلہ کو توڑا نہ جائے بلکہ اسے کامیاب بنانے کی کوشش کی جائے اور ٹھیک اسی وقت پرائم منسٹر ہاؤس پر ضیائی شب خون مارا جا رہا تھا۔قومی اتحاد کے قائدین میں سے اکثر یت کا یہ خیال تھا کہ ”اس رات اگر یہ قدم نہ اٹھایا جاتا تو۔۔۔۔غالب امکان تھاکہ 5جولائی کو معاہدہ کی تاریخ طے پا جاتی۔۔۔۔1984 ء میں جنرل چشتی نے ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ 4 جولائی کو رات گئے تک مذاکرات ہوتے رہے۔وزیر اعظم کے حکم پر افواج پاکستان کے کمانڈر انچیف سارا دن اپنے دفتر میں بیٹھے وزیر اعظم کی ٹیلی فون کال کا انتظار کرتے رہے۔ وزیراعظم کی طرف سے کوئی کال موصول نہ ہونے پر آرمی چیف نے خود وزیر اعظم کو کال کرکے استفسار کیا۔وزیر اعظم سے گفتگو مکمل ہونے کے بعد آرمی چیف نے جنرل چشتی کو فوج کی ہائی کمان کے فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دے دیا۔ جنرل چشتی نے یہ بھی بتایا ”ٹیک اوور کا حکم مجھے دیا گیا تھا، میں نے بھٹو کو اقتدار سے اس طرح باہر کیا، جس طرح مکھن میں سے بال نکالتے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ میری جرنیلی اچھی تھی…… میں نے نہ صرف یہ کیاکہ کسی کو پرائم منسٹر ہاؤس میں داخل نہیں ہونے دیا بلکہ کسی کو اُس رات پرائم منسٹر ہاؤس سے باہر بھی نہیں نکلنے دیا۔ اس دن پرائم منسٹر ہاؤس کے اندر کوئی نہیں جا سکتا تھا۔صرف ایک شخص اندر جا سکتا تھا۔وہ میں تھا۔صرف جنرل چشتی کو یہ اختیار حاصل تھا اور کسی کو نہیں کیونکہ آرڈر مجھے ملے تھے۔حتیٰ کہ جنرل ضیاء الحق بھی اس رات پرائم منسٹر ہاؤس میں داخل نہیں ہو سکتے تھے“۔
جب اُن سے پوچھا گیا کہ بھٹو کو مری کون لے کر گیا۔تو جنرل چشتی کا جواب ملاحظہ فرمائیں ”میں نہیں گیا۔میں بہت بڑا جرنیل تھا۔ میں کیوں جاتا۔ میں لیفٹیننٹ جنرل تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل کو آپ کیا سمجھتے ہیں۔بہت آفت شے ہوتا ہے اگر آج جرنیلوں نے اپنی قدر و قیمت گنوا دی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ مجھے پولیس آفیسر کا کردار ادا کرنے کی گالی دیں۔یہ کام میرا کوئی بھی ماتحت کر سکتا تھا۔میرے کسی ماتحت نے اسے مری لے جانے کیلئے حفاظت میں لیا ہو گا“۔
یہ اندازِتکبر تواُن کی گفتگو میں بھی نہیں ملتا
جنہوں نے زمین پر خدائی کا دعویٰ کیا ہے۔جنرل چشتی نے بہت سی اورباتیں بھی کیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اس فوجی بغاوت کے پس منظر میں امریکی ہاتھ کو انہوں نے بے نقاب نہیں کیا۔ اگست 1976 میں ہنری کسنجر نے ذوالفقار علی بھٹو کو مشروط سیاسی اور اقتصادی امداد کی پیشکش کی کہ ”اگر پاکستان بھارت کے مقابلے میں ایٹمی توانائی حاصل کرنے کی کوشش سے دستبردار ہوجائے تو اُسے ہر طرح کے فائد ے پہنچ سکتے ہیں“لیکن حسینی قبیلے کے لوگ کسی سامراجی طاقت کو کب خاطر میں لاتے ہیں۔بھٹو نے امریکی مفادات کے آگے سجدہ ریز ہونے سے انکار کردیا۔ جس پر ہنری کسنجر نے تمام سفارتی آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے نیویارک کے غنڈوں کی طرح ذوالفقا ر علی بھٹو کو عبرت ناک مثال بنانے کی دھمکی دی۔یہ دھمکی 1977 ء کے انتخابات میں قومی اتحاد کی صورت میں پاکستانی عوام کے سامنے تھی۔
لیکن میں معاملات کو صرف اس حد تک نہیں دیکھتا میرے خیال میں امریکہ اُس سے پہلے افغانستان جنگ کا نقشہ تیار کر چکا تھا جس کیلئے اُسے پاکستان میں ایک اسلامی تحریک اور امیرالمومنین کی تلاش تھی جو اُس نظام مصطفی کی تحریک اور جنرل ضیاء الحق کی شکل میں مل گیا۔ذوالفقا ر علی بھٹو نے ٹھیک کہا تھا کہ سی آئی اے انتخابات میں بے دریغ پیسہ خرچ کرکے بھی پی این اے کو نہیں جتوا سکا، بھٹو کو شکست نہ دے سکا لیکن بھٹو پر دھاندلی کا الزام لگانے کے بعد ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔اس ہنگامہ آرائی پر سی آئی اے نے اتنے ڈالر خرچ کیے کہ کراچی میں ڈالر کی قیمت گر گئی۔یہ سب کچھ صرف بھٹو کو ہٹانے کیلئے نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے شواہد بعد ازاں ہمیں افغانستان کی جنگ میں بھی بکثرت ملتے ہیں۔جہاں امریکہ روس کوگھیر کرشکست دینے کے بعد دنیا کی اکلوتی سپر پاور بننے کیلئے تیاربیٹھا تھا۔بھٹو کا روس اور چین کی طرف جھکاؤبھی تھا اوروہ نیم کامریڈبھی۔ سو اُس کی موجودگی میں افغانستان کی جنگ کا آغاز کرنا کوئی دانشمندی نہیں تھی اسی لیے امریکہ نے اپنے اُن مہروں کو آگے کر دیا جو ہمیشہ اقتدار سے دو قدم آگے ہوتے ہیں۔
جب قومی اتحاد کی تحریک زوروں پر تھی تو قائم مقام امریکی سفیر کی ٹیلیفون پر ایک دوسرے سفار ت کار سے گفتگو پاکستانی ا نٹیلیجنس کے محکمے نے ٹیپ کر کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جو کچھ یوں تھی ”بھٹو ختم ہو گیااور کھیل بھی ختم ہوگیا“انگریز ی الفاظ کچھ یوں تھے Bhutto is Finished.The party is Over.۔اگلے دن بھٹو نے اسمبلی کا اجلاس بلایا ہوا تھا۔جہاں تقریر میں بھٹو نے کہا: کھیل ختم نہیں ہوا۔لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اس بار بھی بروٹس اُس کے پہلو میں کھڑا ہے،معاملات طے ہو چکے ہیں صرف اُن پر عمل درآمدہونا باقی ہے۔جو عنقریب ہونے والا تھا۔
جنرل ضیاء الحق اقتدار میں آ نے کی راہ بہت پہلے سے ہموار کرچکا تھا۔جب اُس نے محسوس کیا کہ حکومت اور قومی اتحاد مذاکرات میں جا رہے ہیں اور بھٹو میز پر کسی بھی مسئلے کو حل کر سکتا ہے تو اُسی وقت مسلح افواج کے چاروں سربراہان نے ایک مشترکہ اعلامیہ میں اعلان کیا کہ تینوں مسلح افواج موجودہ قانونی حکومت کی مکمل حمایت کرتی ہیں۔انہوں نے اپنے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ وہ حکومت کی طرف سے عائد کردہ آئینی ذمہ داریوں اورفرائض سے عہدہ برآ ہوں گے۔بھٹو انسان تھا اور انسان دھوکہ کھا جاتے ہیں۔اس مشترکہ اعلامیہ کے بعد اُسے بھی اپنی پشت پر طاقتور ہاتھ کا سہار ا محسوس ہوا ہو گا ۔انسان کے پاس جب طاقت ہوتی ہے تو پھر مکالمے کے وقت اُس کی باڈی لینگوئج اور انداز گفتگو بھی تبدیل ہوجاتا ہے جو اکثر سیاسی مکالمے کو غارت کردیتاہے۔میرا خیال ہے یہی بھٹو کے ساتھ ہوا۔بھٹو نے 4مئی کو جنرل ضیا الحق کے نام شکریے کا خط بھی لکھا۔ جنرل ضیا الحق اپنے پروگرام کے مطابق آ ہی گیااُس نے اپنی پہلی تقریر میں 90 دن میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے اور اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا اوروہ انتقالِ اقتدار کے وعدے پر اپنے انتقال تک قائم رہا۔جنرل ضیا وعدوں کی پاسداری کرنے والا شخص نہیں تھا۔جنرل ضیا صرف ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دینے کیلئے انتخابات کی مختلف تاریخیں دیتا رہا لیکن بھٹو کو قتل کرانے کے بعد اُس نے انتخابات غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کردیئے۔جسٹس یعقوب علی خان کی جگہ جسٹس انوار الحق کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔ عدالت نے ”نظریہ ضرورت“ کی بنیاد پر یہ فیصلہ دیا کہ مارشل لا کا نفاذ آئین کو منسوح نہیں کرتابلکہ یہ محض ایک آئینی تبدیلی ہے۔فوجی حکام اب آڈرز اور ریگولیشنز جاری کرسکتے تھے۔فیصلے میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو آئین کے تحت تمام اختیارات کاحامل قرار دیتے ہوئے اسے آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دے دیا گیا۔عدل کی روح ناپید اور عدالتیں مقتل بن گئیں۔پی سی او ججوں نے بنیادی حقو ق کا جنازہ نکال کررکھ دیا۔پاکستان کی سب سے بڑی عدالت،سمری ملٹری کورٹ کے کسی فیصلے کو بھی چیلنج نہیں کرسکتی تھی۔یہ تھیں وہ عدالتیں اور جج جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کیا۔ایک ایسا شخص جو پاکستانی عوام کے دلوں پر آج بھی راج کرتا ہے۔ کیا ایسے ججوں کو تاریخ کبھی اچھے الفاظ میں یاد ر رکھے گی؟کیا ذوالفقا رعلی بھٹو مقتول اور ضیا الحق ایک ہو سکتے ہیں؟آج بھٹو کاجنم دن ہے ٗ جس کہانی کو تم نے مقتل میں چھپانا چاہا آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلی ہے۔ اُس عدالت کی کیا اخلاقیات یا قانون جواز باقی رہ جاتا ہے جو وعدہ معاف گواہ کو بھی سولیوں پر چڑھا دے؟کیا کسی فوجی یا غیر فوجی آمر کے دباؤ میں ا ٓکر کام کرنیوالا شخص جج کہلانے کا مستحق ہے؟کیا غیر آئینی اور غیر اخلاقی طریقے سے بننے والا جج اور اُس کے فیصلے قابلِ احترام ہوتے ہیں؟ کیا پاکستان کے بہادر بیٹے میدان جنگ اور ذہین سپوت عدالتوں میں قتل ہوتے رہیں گے؟۔