ایک وقت تھا، ہیٹ، انگلش،کافی اور سگار ایک بیوروکریٹ کی پہچان، اپ رائٹ،ہارڈ ورکنگ اور اکارڈنگ ٹو بک چلنا اس کی شان ہوا کرتا تھا، ہیٹ تو متروک ہو چکا مگر سگار، کافی اور انگریزی ابھی تک چل رہی ہے، فیلڈ کا افسر جیپ اور سیکرٹریٹ کا افسر کار استعمال کرتا تھا، رشوت لینا تو دور کی بات اس پر ایسا الزام بھی نہیں لگتا تھا،خلاف ضابطہ کام اس سے کرانا ناممکن بات تھی مگر اب حالات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ بیوروکریٹ اور افسر بھی بدل گئے ہیں،آج کا بیوروکریٹ کس کس سانچے میں ڈھل چکا ہے اس پر ایک مکمل کتاب بلکہ کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ہمارے ملک میں نظام حکومت آمرانہ رہا ہو یا جمہوری، دونوں میں بیوروکریسی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے بلکہ کسی بھی حکومت کی کامیابی کا دارومدار ہی بیوروکریسی پر ہے،جس حکمران نے بیوروکریسی میں سے چنیدہ افسر تلاش کر کے بہترین ٹیم تشکیل دی کامیابی نے ہمیشہ اس کے قدم چومے،ہماری خوش قسمتی کہ قیام پاکستان کے وقت ہمارے حصے میں آنے والی بیوروکریسی برطانوی حکومت کی تربیت یافتہ تھی،یہ وہ دور تھا جب بھرتی میرٹ پر ہوتی،خاص طور پر وہ افراد جن کی مدد سے انگریز کو اس خطہ میں مستحکم اور مضبوط حکومت کا قیام یقینی بنانا تھا،تعلیم یافتہ افراد کو تربیت کی بھٹی سے گزار کر انہیں کندن بنایا جاتا تھا،کوٹہ سسٹم بھی نہ تھا کہ نالائق ترین افراد
کو کوٹہ کے تحت اعلیٰ پوسٹ پر بھرتی کر لیا جاتا،تقسیم کے وقت خزانہ خالی تھا،وسائل نہ ہونے کے برابر تھے،مہاجرین کی آباد کاری ایک بڑا مسئلہ تھا،مگر نو آزاد ملک کی بیوروکریسی نے تمام انتظامی، مالی، سیاسی امور کو انتہائی مہارت سے سنبھالا اور مشکل ترین وقت میں اس کو ترقی خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا،ملکی دفاع اور سلامتی کو بھی یقینی بنایا،یہ اس وجہ سے ممکن ہواکہ افسروں کی وہ کھیپ نہ صرف تعلیم یافتہ تھی بلکہ تربیت کے مراحل سے بھی گزری اور اپنے اپنے شعبے میں مہارت بھی ان کا خاصہ تھی،قواعد و ضوابط سے نا صرف آشنائی تھی بلکہ ان پر سختی سے عمل کرنا اس وقت کی بیوروکریسی کی عادت بن چکی تھی،آئین کا احترام کیا جاتا،قانون کی پاسداری کی جاتی،افسر اپنے محکمہ کے رولز اینڈ ریگولیشن اور بائی لاز سے کما حقہ آگاہ ہوتے تھے،ان افسروں نے اپنے جونیئر افسروں کی جو کھیپ تیار کی وہ بھی بہترین تھی،جب تک امور مملکت بیوروکریسی کی اس جیسی کھیپ کے ہاتھ رہے ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر تیزی سے گامزن رہا،مگر جیسے ہی بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت،سیاست دانوں کے اثرورسوخ اور حکمران طبقہ نے غلبہ حاصل کیا وہ فورس جس کو انتظامیہ کا نام دیا گیا تھا اور امور مملکت کو چلانا جس کی ذمہ داری تھی وہ گروپوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی۔
نتیجے میں بیوروکریسی اور انتظامیہ کو مختلف نام دئیے جانے لگے وہ بھی طنزیہ،توہین اور تضحیک آمیز،کسی نے افسر شاہی کا نام دیا تو کسی نے نوکر شاہی،کسی نے گورنمنٹ سرونٹ کا لقب دیا کسی نے پبلک سرونٹ،بھٹو دور میں بیوروکریسی کو گھر کی لونڈی بنانے کی بھر پور کوشش کی گئی،حکمران پارٹی کے رہنماؤں کے زبانی احکامات نہ ماننے والے درجنوں افسروں کو گھر بھیج دیا گیا اور باقی کو سبق دیا گیا کہ اب وہ ہو گا جو حکمران چاہتے ہیں،جس کے بعدبیوروکریسی میں ایک ”جی حضوری گروپ“وجود میں آیا،پیپلز پارٹی کا المیہ یہ تھا کہ وہ عوام کے مینڈیٹ سے ایک منشور کیساتھ اقتدار میں تو آگئی تھی مگر منشور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اس کے پاس ایکشن پلان نہ تھا، اقدامات بیوروکریسی کے ذریعے اٹھائے گئے،تب بیوروکریسی کو بھی سمجھ آئی کہ نوکری کرنے کیلئے”باس از آل ویز رائٹ“ کا فامولا درست ہے اس لئے سیاسی باس جو کہے اس پر صرف ”یس سر“ کہنا ہے،نتیجے میں جی حضوری گروپ خوب پنپا،پلا بڑھا اور اب تو یہ گروپ جوان اور پختہ کار ہو چکا ہے۔
بیوروکریسی میں ایک بہت بڑا گروپ ایسا بھی ہے جسے اپنے سوا سب غلط کار دکھائی دیتے ہیں،یہ گروپ اپنی منفی سرگرمیوں کو بھی مثبت کا نام دیتا ہے اور اس پر فخر بھی کرتا ہے،خود تو اس نے تنکا بھی دہرا نہیں کرنا ہوتا البتہ دوسروں کے کام میں خامیاں تلاش کرنے میں ساری توانائی اور ذہانت استعمال کر ڈالتا ہے،ساتھی افسروں کے کام سے کیڑے نکالنا بھی اس گروپ کا ہی کام ہے،ان کی نیگٹیو اپروچ کے باعث ان کو یار لوگوں نے”منفی دیانت دار گروپ“کا ٹائٹل دے رکھا ہے،اس گروپ کی بڑی خوبی یہ کہ ان کو اپنی داڑھی میں شہتیر بھی دکھائی نہیں دیتا اور دوسروں کی داڑھی سے تنکے تلاش کرنے میں مگن رہتے ہیں۔
”جھولی چک“افسربھی بیورو کریسی کا حصہ ہیں، یہ دراصل ”جی حضور اور یس سر“ گروپ کی ہی ایک زیادہ پختہ شاخ ہے،ان کا کام وقت کے حکمرانوں کے سامنے ان کی تعریفوں کے پل باندھ کر من مرضی کی تعیناتی اور وقت سے پہلے ترقی حاصل کرنا ان کا بنیادی مقصد ہوتا ہے،ان کے چہرے پر ہر وقت منافقانہ مسکراہٹ سجی رہتی ہے اور زبان پر جی جناب، قائد محترم،درست فرمایا جناب،یس سر،جی حضور رہتا ہے،یہ ابن الوقت لوگوں کا ایک گروہ ہے جو آپس میں بھی کسی کے سگے نہیں بلکہ ذاتی مفاد کیلئے یہ کسی کو بھی ڈنگ مار سکتے ہیں،ان کو بھی اپنی ناک کے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا،ان کا کام ہے باس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانا۔ویسے ان کے قائد محترم بھی وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں مگر یہ نہیں بدلتے۔ایک اعلیٰ افسر جو وزیر اعلیٰ کے بہت قریب تھے اور انہیں بہترین وزیر اعلیٰ گردانتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہمارے وزیر اعلیٰ کے لئے وزارت اعلیٰ بہت چھوٹی ہے۔وہ وزیر اعلیٰ تبدیل ہوئے تو نئے وزیر اعلیٰ کے بارے بھی انکے خیالات ویسے ہی تھے،ایک دوسرے افسر نے کہا یار آپ فلاں وزیر اعلیٰ کے جاتے ہی بدل گئے تو انہوں نے کہا ایسا الزام نہ لگائیں،ہم تھوڑا بدلے ہیں،ہم تو وزیر اعلیٰ کے ساتھ ہی ہیں فلاں وزیر اعلیٰ ہی بدل گئے ہیں تو یہ ان کا قصور ہے ہمارا تھوڑا ہے۔
دھوتی چک بھی افسر وں کا ایک اہم گروپ ہے، یہ باس اور طاقتور کے سامنے بچھے جاتے ہیں مگر ماتحتوں اور عام لوگوں کے سامنے انتہائی سخت گیری کا مظاہرہ کرتے ہیں، اسکی زیادہ تفصیل میں جانا مناسب نہیں سمجھنے والے سمجھ گئے ہوں گے۔ بیوروکریسی میں مثبت سوچ رکھنے والے کام کرنے والے اچھے افسروں کی بھی کمی نہیں ہے،آج بھی بہت سے افسر اپنی اصول پسندی،دیانت کے حوالے سے ممتاز ہیں،یہ افسراپنے کام کے دھنی ہوتے ہیں،ہدف بنا کر کام کرتے ہیں کام کے معاملہ میں ماتحت عملہ سے بھی سختی کرتے ہیں اگر چہ عام حالات میں ماتحت عملہ سے ان کا رویہ بہت مشفقانہ ہوتا ہے،البتہ قواعد و ضوابط پر سختی سے کاربند رہنے اور رولز ریگولیشن پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ماتحت عملہ میں بھی ناپسندیدہ ہوتے ہیں،ساتھی افسر بھی ان کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور حکمران طبقہ کے لئے تو یہ لوگ”پرسنا نان گریٹا“ ہوتے ہیں،مگر بیوروکریسی میں ان کی نیک نامی کا طوطی بولتا ہے۔