پاک افغان سرحدی مسائل ایک نیا امتحان

پاک افغان سرحدی مسائل ایک نیا امتحان

افغانستان میںطالبان کی آمد کے باوجود پاکستان کی شمال مغربی سرحد محفوظ نہیں ہو سکی حالانکہ توقع تھی کہ کٹھ پتلی حکومت کے خاتمے سے دونوں برادر ملکوں کے سرحدی مسائل ختم ہو جائیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا بلوچستان کے ضلع چمن اور افغان صوبے ننگر ہار کو ملانے والی سرحد پر لگی باڑ اُکھاڑ پھینکنے کے ساتھ پاکستان کے خلاف نعرے بازی بھی کی گئی اور یہ سب کچھ افغان فورسز کے روپ میں کیا گیا ایسے واقعات تسلسل سے ہونے لگے ہیں جس سے دونوں ملکوں کی قیادت کے درمیان پیداہونے والی قربت و گرمجوشی میں نہ صرف کمی کا خطرہ منڈلانے لگا ہے بلکہ کشیدگی بھی جنم لے سکتی ہے اِس حوالے سے پاک افغان اعلیٰ سطحی روابط کے باوجود ابھی تک کسی حل پر اتفاق نہیں ہو سکا اشرف غنی حکومت سرحدی باڑ پر اعتراضات کرتی رہی اِس دوران فائرنگ جیسے اشتعال انگیز واقعات بھی ہوئے جن میں جانی نقصان بھی ہوا لیکن دونوں ممالک کی2446 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کا عمل چاہے سُست روی سے ہی سہی مگر جاری رہا اب جب باڑ لگانے کاکام محض دس فی صد رہ گیا ہے تو کچھ عناصر رکاوٹیں ڈالنے لگے ہیںحالانکہ باڑ کا مقصدغیرقانونی آمدورفت کا خاتمہ کرنا ہے تاکہ منشیات کی اسمگلنگ اور دہشت گردوں کی آزادانہ نقل و حمل پرقابو پایاجا سکے لیکن لگتا ہے کہ طالبان کی آمد کے باوجود سرحد کے تعین کا مسئلہ ایک بار پھردونوں ملکوں کی قیادت کو درپیش ہے جس کے لیے دونوں طرف ایسے عناصر کو ناکام بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جو سرحد کے تعین کا ایک سو اٹھائیس برس قبل حل ہوجانے والا مسئلہ اُٹھا کر دوبرادر مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے مد مقابل لانا چاہتے ہیں۔
یہ عیاں حقیقت ہے کہ جب بھی افغانستان پر کسی ملک نے حملہ کیا پاکستان نے ہمیشہ بڑے بھائی کی طرح افغانوں کی مدد کی روس کو پسپا کرنے میں افغانوں کے ساتھ پاکستان بھی جانی و مالی نقصان اُٹھانے کے باوجودثابت قدم رہا اور نہ صرف افغان بھائیوں کو ملک میں آنے کی اجازت دی بلکہ جارح روس کو نکالنے کے لیے عالمی سطح پراخلاقی وسفارتی حوالے سے ہر ممکن مدد کی حالانکہ مہاجرین کی وجہ سے ہیروئن کلچر اورکلاشنکوف کلچر ملا مگر پاکستان کی ثابت قدمی میں فرق نہ آیاتو پھر کون لوگ ہیں جو احسان فراموشی کی روش پر گامزن ہیں ایسے حالات میں جب پاکستان اپنے افغان بھائیوں کے مسائل بھوک و افلاس حل کرانے اور اقوام عالم کو طالبان عبوری حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے قائل کرنے میں مصروف ہے سرحدی مسائل اچھالنا کسی کے لیے سود مند نہیں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ غیر ضروری مسائل کو ہوا دینے والے افغانوں کے بہی خواہ نہیں بلکہ اغیارکے کارندے ہیں طالبان کی یہ اولیں ذمہ داری ہے کہ نہ صرف اپنی صفوں میں موجود ایسے عناصر کو تلاش کریں بلکہ انھیں صفوں سے نکالنے کے ساتھ واضح اعلان کریں کہ اِ ن سے اُن کا کوئی تعلق نہیں تاکہ پاکستان سرحدوں کے حوالے سے بے نیاز ہوکر اپنے افغان بھائیوں کا مقدمہ عالمی سطح پر زیادہ بہتر انداز میں پیش کرسکے۔
نتائج کی پرواہ کیے بغیر ہر معاملے پر بولنا ہربار نفع بخش نہیں ہوتابلکہ کبھی نقصان دہ بھی ثابت 
ہوسکتا ہے مگر عمران خان ایک سے زائد باراِس حوالے سے لاپرواہی کا مظاہرہ کر چکے ہیں حالانکہ لاپرواہیوں کے نقصانا ت سے ملکی مفادات متاث ہونے کے ساتھ اُن کی اپنی شخصیت بھی مجروع ہوتی ہے لیکن لگتا ہے اُنھیں اِس کا کچھ خاص احساس نہیں جب وہ امریکہ کے دورے پر تھے تو انھوں نے فارن ریلیشنز کونسل سے خطاب کرتے ہوئے پاک افغان سرحد کے تعین سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ انگریزوں کی کھینچی ایک لکیر ہے وزیرِ اعظم کی عالمی سطح پر لاپرواہی کی آج ملک کو قیمت چکانا پڑ رہی ہے اگر وہ زمہ داری کا مظاہرہ کرتے اور اپنی بات کو دیگر امور تک محدود رکھتے تو آج شرپسندوں کو سرحدی مسلہ اُٹھانے کا بہانہ نہ ملتا۔
پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ 3جون 1946کے قانونِ آزادی ہند کے تحت جو علاقے برطانوی حکومت کی عملدآری میں تھے انھی مسلم اکثریتی علاقوں کو آزادی دینے سے پاکستان کا قیام عمل میں آیاجبکہ بارہ نومبر 1893میں برطانوی نمائندے ڈیورنڈ اور افغان بادشاہ امیر عبدالرحمان نے سرحد کے تعین کے معاہدے پر دستخط کیے برطانوی نمائندے کے نام کی وجہ سے ہی سرحدی لکیر کو ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے امیر عبدالرحمان کی وفات کے بعدافغانستان اور برطانیہ میں بات چیت کے بعد ایک اور معاہدہ 21 مارچ 1905 کو معاہدہ طے پایا جس میں 1893کے معاہدے کی ایک بار پھر توثیق کی گئی ؎ اور ڈیورنڈ لائن کو مستقل بین الاقوامی سرحد تسلیم کیا گیااسی طرح 8 اگست 1919میں بھی دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں بادشاہ کی زندگی تک کی شرط ختم کرتے ہوئے دونوں ممالک نے سرحد کو ہمیشہ کے لیے تسلیم کرنے کانہ صرف اعادہ کیابلکہ اِس معاہدے میں علاقوں کی وضاحت بھی کر دی گئی جس کے تحت برطانوی حکومت وزیرستان ،کافرستان اور نورستان کے کچھ حصوں سمیت اسمارا،مہمند پر اپنے دعووئوں سے پیچھے ہٹ گئی جبکہ افغانستان نے بدلے میں بونیر،دیر،چترال،باجوڑ،کرم ، سوات ،چلاس،چمن وغیرہ سے دستبرداری کا اعلان کیا جس سے امید پیدا ہوئی کہ سرحدی حد بندی کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے کیونکہ معاہدے کی شقوں کی رو سے افغانستان کو اِس امر کا پابند بنایاگیا کہ وہ کسی صورت ڈیورنڈ لائن کے دوسری طرف مداخلت نہیں کرے گا 22نومبر1921میں دونوں ممالک نے اچھے تعلقات کے معاہدے میں بھی علاقوں کی وضاحت والے معاہدے کو برقرار رکھاگیا لیکن اب کچھ عناصر اِس سرحد کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں حالانکہ ڈیورنڈلائن کو بطور سرحد کو اکثر افغان حکمران تسلیم کرتے رہے اور سرحدی معاہدوں کی ایک سے زائد بار توثیق بھی کی تو پھریہ کون لوگ ہیں جو امن کو بدامنی میں اور دوستی کی مٹھاس کو زہر میں بدلنا چاہتے ہیں؟ طالبان کو سوچنا چاہیے ۔
افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان نے ایک ویڈیوبیان میں کہا ہے کہ وہ باڑ لگانے کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے کیونکہ یہ سرحد کے دونوں طرف کے خاندانوں کی تقسیم ہے اِس بیان پر پاکستان کی طرف سے کوئی باضابطہ ردِ عمل ابھی تک سامنے نہیں آیا لیکن سفارتی حلقے کہتے ہیں کہ پاک افغان قیادت کے پس منظر میں ہونے والے روابط میں یہ مسئلہ سرفہرست ہے اور طالبان عبوری حکومت اپنے کمانڈروں کے طرزِ عمل سے پر یشان ہے کیونکہ مشکل صورتحال میں وہ پاکستانی تعاون کی اہمیت کو سمجھتے ہیں لیکن کچھ عناصر ایسا تاثر پیش کرتے ہیں جیسے طالبان شرپسند عناصر پر قابو پانے میں ناکام ہوچکے ہیں جس سے ایک بار پھر افغانستان میں بیرونی مداخلت کا خدشہ پیداہونے لگاہے ابھی حال ہی میں نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں26 اگست 2021 میں کابل ائرپورٹ حملے کے چشم کشا انکشافات میں لکھاہے کہ لوغاری نامی خود کش بمبار نے رچنا یونیورسٹی دہلی سے تعلیم حاصل کی اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہو کر تخریبی سرگرمیوں میں حصہ لیتا رہا ہے اسی نے کابل ائر پورٹ دھماکے میں تیرہ امریکیوں سمیت دو سو افراد کو ہلاک کیا طالبان عبوری حکومت کو چاہیے کہ وہ افغانستان کو دوبارہ غیر ملکی دراندازوں کا اکھاڑہ نہ بننے دیں اور سرحدی مسائل کو اچھالنے والوں پر نظر رکھیں یہ کسی کے خیر خواہ نہیں بلکہ دشمن ہیں حل شدہ سرحدی مسائل اچھال کر افغان کچھ حاصل نہیں کر سکتے بلکہ اپنی مشکلات بڑھانے کے ساتھ ایک بے لوث ہمسائے کوصرف ناراض کر سکتے ہیں اِس لیے جب وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کو اپنی سرزمین استعمال نہیں کر نے دیں گے تو لگی باڑ اُکھاڑنے اور پاکستان کے خلاف نعرہ بازی کرنے والوں کو سزا دینے میں اُن کا اپنا ہی فائدہ ہے بیس برس کے دوران بھارت نے افغانستان میںکافی چیلے بنا لیے ہیں اِس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ سرحدی مسائل اُچھالنے میں انھی کا ہاتھ ہے مگر ایسے لوگوں پر قابو پانا کسی اور کی نہیں طالبان کی ذمہ داری ہے۔

مصنف کے بارے میں