اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے 36 صفحات پر مشتمل حدیبیہ پیپرز ملز کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حدیبیہ ریفرنس ایک گمنام شکایت پر بنایا گیا، لاہور ہائیکورٹ کا اقدام درست تھا۔ ریفرنس کا مقصد فریقین کو دباو میں لانا تھا۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق اٹک قلعہ میں لگائی گئی عدالت تک عوامی رسائی نہیں تھی۔ چیئرمین نیب کو اٹک قلعہ میں احتساب عدالت لگانے کا اختیار نہیں تھا۔ الزامات کی وضاحت کیلئے ملزمان کو نیب نے کبھی نہیں بلایا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق 92-1991ءمیں منی لانڈرنگ ہوئی۔ پاکستان میں 2007ءکے دوران منی لانڈرنگ کو جرم قرار دیا گیا۔ نیب نے ملزمان کے غیر ملکی اکاو¿نٹ کی رقم پر غیر قانونی ہونے کا الزام نہیں لگایا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حدیبیہ پیپرز ملز کیس کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کا اقدام درست تھا۔ ریفرنس کا مقصد فریقین کو دباو¿ میں لانا تھا۔ منی لانڈرنگ کا ٹرائل احتساب عدالت نہیں سیشن کورٹ میں ہوتا ہے۔فیصلے کے مطابق اسحاق ڈار کا بیان سیکشن 164 کے تحت ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ مجسٹریٹ اسحاق ڈار کا بیان ریکارڈ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا تھا۔ اسحاق ڈار کا بیان چیئرمین نیب یا احتساب عدالت کے سامنے ریکارڈ ہو سکتا تھا۔ اسحاق ڈار کے بیان کو جواز بنانے کیلئے قانون میں ترمیم کی گئی۔ اسحاق ڈار کا بیان اپنی وضاحت سے متعلق ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ 164 کا بیان ریکارڈ کرتے وقت ملزمان کی موجودگی ضروری ہے۔ 164 کے بیان میں ملزمان کو گواہ پر جرح کا حق ہوتا ہے۔ اسحاق ڈار کا بیان ملزمان کے سامنے ریکارڈ ہونا چاہیے تھا۔ فیصلے کے مطابق ریاست کی تحویل میں موجود ملزمان کو جلا وطن کرنا جرم ہے۔ ریاستی تحویل میں موجود ملزمان کو جلا وطن کرنے کی سزا 10 سال قید تک ہے۔
واضح رہے کہ نیب نے 20 ستمبر 2017 کو حدیبیہ کیس دوبارہ کھولنے کیلئے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس میں نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، شمیم اختر اور صاحبہ شہباز کو فریق بنایا گیا۔تاہم 15 دسمبر 2017 کو سپریم کورٹ نے اس کیس سے متعلق مختصر فیصلہ سناتے ہوئے حدیبیہ کیس کو دوبارہ کھولنے سے متعلق نیب کی اپیل مسترد کردی تھی۔
حدیبیہ ریفرنس گمنام شکایت پر بنایا گیا،جس کا مقصد فریقین کو دباومیں لانا تھا، سپریم کورٹ
07:39 PM, 5 Jan, 2018