دوسری عالمی جنگ کے بعد لیگ آف نیشنز کے کھنڈرات پر ”اقوام متحدہ“ کی عمارت تعمیر ہوئی تو عالمی امن کے قیام کا ٹھیکہ بھی اسے دے دیا گیا۔ مگر بیتے ستر برس پر نظر ڈالیں تو عالمی امن کے قیام میں ہوئی پیش رفت پر مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ فلسطین اور کشمیر کے مسئلے اقوام متحدہ کے حل طلب تنازعات میں سر فہرست ہیں۔ حالانکہ اقوام متحدہ نے 1948 اور 49ء کی اپنی قرار داوں میں ساری دنیا سے یہ عہد کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو UN کے وضع کردہ اُصولوں کے عین مطابق حل کیا جائے گا۔ مگر امن کے عالمی ٹھیکے داروں نے اس ضمن میں جتنے بھی دعوے کیے وہ سب ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا۔۔ جو سنا افسانہ تھا“ کی عملی تصویر کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ اگرچہ ان برسوں میں دیوار برلن گرا دی گئی، جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمورسمیت یورپ اور ایشیاء میں کئی نئے ملک وجود میں آئے۔ مگر نہتے کشمیریوں کی تیسری نسل اپنی متلاشی نگاہوں سے ہنوز آزادی کی راہ تک رہی ہے۔ جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس تنازعے کے باعث تین مرتبہ نوبت کھلی جنگ تک پہنچ چکی۔ یہ بات اور بھی المناک ہے کہ آزادی کی اس جدو جہد میں لاکھوں کشمیری بھارت کی ریاستی دہشت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ویسے تو دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پامالیاں کسی نہ کسی شکل میں جاری ہیں مگر مقبوضہ جموں وکشمیر دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جہاں سات دہائیوں کے طویل عرصہ میں قابض ہندی فوج تسلسل کے ساتھ غیر انسانی مظالم اس ڈھنگ سے ڈھا رہی ہے جن کا تصور کسی بھی مہذب معاشرے میں نہیں کیا جاسکتا۔ مگر آفرین ہیں انسانی حقوق کے عالمی علم برداروں کے جنہیں برہمن کی درندگی اور سفاکی نظر ہی نہیں آرہی۔پچھتر سالوں میں کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہونا اقوام متحدہ سمیت عالمی امن کے علمبرداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ کشمیر اب ایک تنازعہ یا مسئلہ نہیں رہا بلکہ آزادی کی تحریک بن چکا۔ ایسی صوت حال میں عالمی سکوت افسوس ناک اور قابل مذمت ہے۔
گزشتہ دنوں حریت قیادت نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس پر زور دیا کہ وہ عالمی ادارے کی متعلقہ قراردادوں پر عملدرآمد کے ذریعے کشمیر کو حل کرانے کے لیے اقدامات کریں۔ ادارہ انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کی حالیہ رپورٹ پر عملدرآمد کرائے جس میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے
انسانی حقوق کی پامالیوں کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دے۔ کشمیری سیاسی قیدیوں کی مسلسل نظر بندی اور جیلوں میں ان کے ساتھ روا رکھے جانے والا انسانیت سوز سلوک بھی قابل مذمت ہے۔ عقوبت خانوں میں قید مجبور اور بے بس کشمیریوں کے ساتھ بہیمانہ اور انتقامی برتاؤ سیکولر ازم اور جمہوریت کے بھارتی دعوؤں کی قلعی کھول رہا ہے۔ جیلوں میں بند کشمیریوں کے ساتھ مسلسل بدترین متعصبانہ برتاؤ روا رکھا جارہا ہے۔ اکثریت کو تو علاج معالجے سمیت تمام بنیادی سہولتوں اور حقوق سے بھی محروم ہیں۔ بھارتی پولیس نظر بندوں پر لگائے جانے والے فرضی اور من گھڑت الزامات کو ثابت نہیں کر سکی بلکہ جسمانی اور ذہنی تشدد کے ذریعے اُن کے جذبہ آزادی کو دبانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ان تمام حربوں کو اپنا کر بھی بھارت کشمیریوں کے حوصلے ہرگز پست نہیں کر سکا۔ اُن کا تو عزم برہمنی سامراج کے تسلط سے آزادی لے کر ہی دم لینے کا ہے۔
کشمیریوں کی طرف سے آزادی اور جمہوری حقوق کے مطالبہ پر غاصب بھارتی فوج کی طرف سے ان پر گولیاں برسائی جاتی ہیں، پیلٹ گنوں سمیت خطرناک کیمیائی ہتھیاریوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں جیلوں کی زینت بنایا جاتا ہے۔ ان کے گھروں کو تباہ، پر امن سرگرمیوں پر قدغن اور نوجوانوں کو دیوار کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ کمسن بچیوں کو بھی پیلٹس کا نشانہ بناکر ان کی بینائی چھینی جارہی ہے۔ یہ سب ہتھکنڈے اور غیر انسانی حربے کشمیر میں جمہوریت کے نام پر استعمال کیے جارہے ہیں۔ لاکھوں بھارتی افواج کی موجودگی میں ایک مظلوم اور محکوم قوم جس کے تمام سیاسی، انسانی، مذہبی اور سماجی حقوق طاقت کے بل پر سلب کر لیے گئے ہوں ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ بھارت کے قومی دنوں کو یوم سیاہ کے طور پر منا کر مہذب دنیا کو خود پر ہونے والے مظالم سے آگاہ کریں۔ وہ عالمی برادری پر واضح کرتے ہیں کہ حق پر مبنی ان کی جدو جہد آزادی کو فوجی طاقت کے بل پر کمزور نہیں کیا جاسکتا۔ حریت رہنمااس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ تحریک آزادی کو اس کے منطقی انجام تک جدوجہد جاری رکھی جائے گی اور اس سلسلے میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ حریت قیادت اپنے شہداء کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ایک عظیم نصب العین کے لیے دی جارہی قربانیاں قیادت اورقوم سے جدوجہد آزادی کو اس کے منطقی انجام تک جاری رکھنے کا تقاضا کرتی ہیں۔
مقبوضہ جموں کشمیر میں اعداد شمار کے مطابق ایک لاکھ سے زائد کشمیری نے آزادی کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔سخت سرد موسم میں کتنے ہی گھروں کو نظر آتش کیا جا چکا۔ اس تحریک میں طلباء، اساتذہ بھی جام شہادت نوش کر چکے۔رپورٹ کے مطابق رجسٹرڈ زخمیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے جو اپنی آنکھوں ہاتھوں پاؤں سے زندگی بھر کے لیے اپاہیج ہوچکے۔ انجینئرز، پی ایچ ڈی سکالراور دیگر ڈگریوں کے حامل طلباء بھارتی ظلم و بربریت کے خلاف گن اُٹھانے پر مجبور ہیں۔ کئی درجن افراد ہر سال لاپتا کر دیے جاتے ہیں۔ ان لاپتا افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی راہ تکتے تکتے تھک چکے۔ تما م تر ظلم و جور کے باوجود بھی بھارت وادی میں حق خود ارادیت کو دبا نہیں سکا۔کشمیر میں انسانی جانوں کے زیاں کی تمام تر ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔ مودی سرکار بزور طاقت، دھونس اور دھاندلی سے جموں کشمیر کو ہڑپ کرنا چاہتی ہے۔ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کمیشن، ایمنسٹی انٹر نیشنل، ایشیا واچ اور اسلامی تعاون تنظیم نہتے کشمیریوں کے خلاف بھارتی فورسز کے مظالم کا نوٹس لیں اور جبر و استبداد کی ان کاروائیاں کو فوری طورپر بندکروانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ عالمی ریڈ کراس سمیت انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے اپیل ہے کہ وہ کشمیری نظر بندوں کی حالت زار کا جائزہ لینے کے لیے اپنی ٹیمیں مقبوضہ کشمیر بھیجیں اور ان کی فوری رہائی کے لیے بھارت پر دباؤ بڑھائیں۔ کیا ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منا نے سے کشمیریوں کے لیے کافی ہے؟؟؟ کشمیری نوجوان اپنے لہو سے تحریک آزادی کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ وہ پاکستانی پرچم تھامے ظالم اور غاصب بھارت کے سامنے سینہ سپر ہیں اور ہمارے ہاں سیاسی الزام تراشیوں سے ہی کسی کو فرصت نہیں۔ بحیثیت مسلمان یہ ہم پاکستانیوں کی ذمہ داری ہے کہ کشمیریوں کے درد بھرے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچایا جائے۔ دنیا کی طویل ترین جدو جہد تحریک آزادی جموں کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اُجاگر کیا جائے جس کے لیے پچھلے ستر برسوں سے کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ ان کشمیریوں کے ہاتھوں میں اور ان کے شہداء کے جسموں سے لپٹے سبز ہلالی پرچم کو اقوام عالم کو دکھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔