ہمیں ذہنی طور پر تیار کیا جارہا ہے کہ ایٹمی پاکستان پر معاشی کارپٹ بمباری ہونے کو ہے۔ بیس سال ہم نے ڈومورئیے امریکا کے شکنجے میں سسکتے گزارے۔ پھر ہم عالمی ساہوکاروں مہاجنوں (آئی ایم ایف) کے حوالے کردیے گئے۔ آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے۔ حکومت جب اس خون چوس ویمپائر کو تسلیاں دیتی تھی کہ ’ہم تمہارے مطالبوں کے مطابق گیس مہنگی کریں گے۔ پیٹرولیم پر لیوی (ٹیکس) بڑھائیں گے (اور یوں عوام کی ’لیوی‘ بنائیں گے کچومر نکال کر۔) بجٹ میں اشیاء پر 70 ارب کی ٹیکس چھوٹ ختم کریں گے۔‘ یعنی 70 ارب کا مہنگائی بم عوام پر برسے گا۔ ہم اسے مستقبل بعید کے لیے ٹال مٹول پر محمول کرتے رہے۔ یہاں تک کہ شہ سرخیاں چلا اٹھیں …… تیرا لٹیا شہر بھنبھورنی …… آئی ایم ایف نے بھنبھوڑ کھایا ہمیں۔ ہمارا روپیہ روپیہ گننے والے مہاجنوں کو اگرچہ سب پتہ ہے کہ قرضے اور ترقیاتی فنڈز کن جیبوں میں جاتے ہیں۔ اشرافیہ کے تمام بینک اکاؤنٹ، جائیدادیں (دبئی، یورپ، امریکا، آسٹریلیا!) فارم ہاؤسز ان کے علم میں ہیں۔ جہاں گوگل ہر کس و ناکس کی مالی حیثیت (Net Worth) ایک اشارے (Click) پر اگل دیتا ہے، وہاں ان کے کھاتے کہیں چاند مریخ پر تو نہیں رکھے۔ کیوں نہیں وہ ضبط ہوتے، نچوڑے جاتے؟ جمعہ بازار، سستے بازاروں کے پیاز ٹماٹر پر عوام کو ترسانا، سبزی دال تک رسائی سے باہر کردینا؟ یہ مسلم دنیا کے عوام پر (ایک فیصد بدمعاشیہ نکال کر) صلیبی حملے کی نئی جہت ہے۔
ایک حملہ عقائد، ایمانیات، احساسات پر توہین قرآن ورسالت سے جاری ہے۔ دوسرا مادی، معاشی گلا گھونٹنے کا ہے۔ ہتھیاروں کے حملے بے شمار ہماری آبادیاں نائن الیون سے آج تک اُجاڑ چکے۔ فتنہئ دجال کے سر پر سینگ نہ ہوں گے۔ یہ سیاسی چنگل جو ہر مسلمان کو نرغے میں لیے بھنبھوڑ رہا ہے، اسی کی علامات ہیں۔ ’اشرافیہ‘ عوام کے خوف سے سیاسی بیان کی مصنوعی گرج چمک سے مغرب کو برا بھلا کہہ گزرتی ہے۔ ورنہ حُبِ قرآن ورسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو تو نہ کھرب پتی بننا ممکن ہے، نہ کفر کے ہاتھ پوری آبادیاں گروی رکھنا نہ،ٹرانس جینڈر فلمیں بنانا اور نہ وہ بل پاس کرنا۔ نہ ہی مشرقِ وسطیٰ کی دولت یوں اللوں تللوں میں لٹتی، نہ مسلم تہذیب کے پاک سرزمینوں پر، پرخچے اُڑتے۔ حکمران فرعون ہیں اور عوام ہلکے اور فاسق، بہ زبانِ قرآن! دردمندی میں ڈوبے، عوام کو پچکارتے بیانات دیکھیں اور ان کا عمل ملاحظہ ہو۔ ان پر اُٹھنے والے اخراجات صرف سیکورٹی کی مد میں دیکھ لیں۔
تین سابق وزیر کبیر بھائیوں امین گنڈا پور برادران کو سرکار نے 44 گن مین فراہم کر رکھے ہیں، جو اب کم کرنے/ واپس لینے کی بات ہورہی ہے۔ مولانا، ان کے بیٹے اور بھائی کے پاس 24 گن مین محافظ ہیں۔ سادگی پسند اور امین سابق وزیراعظم عمران خان اُترنے کے بعد بھی گزشتہ سبھی وزرائے اعظم سے زیادہ سیکورٹی سے نوازے گئے۔ یعنی 255 گارڈز تھے۔ 20 ملین (2 کروڑ روپیہ) ماہانہ خرچ صرف ان کی حفاظت میں کھپ گیا! سابق چار وزرائے اعظم کو تو 5 گارڈز فی کس دیے گئے تھے۔ (یوسف رضا گیلانی، پرویز اشرف، شجاعت حسین، شاہد خاقان) یعنی اس کرسی کو جو چھو جائے گھڑی دو گھڑی بیٹھ جائے، غریب قوم اسے سونے میں تول دے؟ 22 لاکھ مربع میل کے حاکم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود راتوں کو گشت کرتے، پہرے داری فرماتے۔ کبھی ساتھ عبدالرحمن بن عوفؓ (جن کی بے بہا دولت مسلمانوں کو فیض پہنچاتی رہی، رئیس صحابی) گارڈ کے فرائض انجام دیتے رہے۔ لوگ بے خوف سونے اچھالتے مملکت میں دوردراز کے سفر کرتے۔ یہی وہ اسلام ہے جس سے عالمی چور اچکے حکمران اور خود مسلم ممالک کے کارساز لرزتے ہیں۔
اسلام انسانیت کے لیے عدل وانصاف، حقیقی مساوات کا حامل اور دولت کے ارتکاز کا سدباب کرنے والا نظام ہے۔ بندہ وصاحب ومحتاج وغنی ایک ہوئے، تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے! آج امریکا وآئی ایم ایف سرکار میں پہنچ کر عمران خان ہو یا شہباز شریف سبھی یکساں تھپیڑے کھاکر واپس آتے ہیں اور محتاج کو محتاج تر کرکے دم لیتے ہیں! مالکِ کل کائنات کے حضور جھکنے سے معذوری (ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات، والے سجدہ سے محرومی!) پر در در سے بھیک مانگتے
پھرتے ہیں (اپنی کرسی) اور قوم کے نام پر قرضوں کی! یہ جو آج خوفناک معاشی زلزلہ بپا ہے یہ چھ سات دہائیوں کی لوٹ مار اور عوام کی غفلتوں کا نتیجہ ہے۔ وقت کرتا ہے پرورش برسوں سے، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ پاکستان کی معاشی، سیاسی، اخلاقی نظریاتی بنیادوں پر نقب لگائی جاتی رہی اور آج ہم خمیازہ بھگت رہے ہیں۔حکمران جب ابوبکرؓ و عمرؓ صفت ہوں تو رعایا بھی تو عثمانؓ و علیؓ، عشرہ مبشرہ اور شاندار سیرت و کردار کے حامل جواہر پر مبنی تھی! اعمالکم عمالکم …… تمہارے اعمال ہی تم پر حکمران ہوتے ہیں۔ ان کو برا بھلا کیا کہنا یہ ہمارے ہی اعمال کی کمائی ہے جو ہمارے سر سوار ہے!
ایک ہفتے کے دوران پے درپے یورپ میں قرآن کریم کی بے حرمتی کے گستاخانہ، جاہلانہ،متکبرانہ واقعات اسلام کے خلاف ان کے سینوں کا بغض، حسد اور تہذیبی گراوٹ کا اظہاریہ ہے۔ یورپی حکومتیں ان کی پشت پناہ ہیں۔ تینوں واقعات میں پولیس موجود رہی۔ راسموسس پلاڈن نے سویڈن کے بعد (ڈنمارک) کوپن ہیگن میں ایک ہفتے کے اندر دوسری مرتبہ مسجد کے باہر جمعے کی نماز کے دوران قرآن پاک جلایا۔ پولیس کا کام صرف اتنا رہا کہ اسے مسلم ردعمل سے بچانے کے لیے اسٹریٹ کا راستہ بند کرکے مسجد کے گرد سیکورٹی سخت کر دی۔ مسجد کے فلسطینی رضاکار نے بتایا کہ ’پلاڈن یہ عمل ڈنمارک کی کئی مساجد کے باہر گزشتہ 2 سالوں میں دُہرا چکا ہے۔ یہ آزادیئ اظہار نہیں اشتعال انگیزی ہے۔‘ ہالینڈ میں اسی قماش کا ڈچ سیاست دان جو انتہاپسند، دہشت گردانہ نظریات کا حامل اسلاموفوبک گروپ ’پیگیڈا‘ کا سربراہ ہے۔ اس نے قرآن پاک ’ہیگ‘ میں پھاڑکر پھینکا (کمال تو یہ ہے کہ ’ہیگ‘ میں بین الاقوامی عدالت برائے انصاف ہے۔ مسلمانوں سے انصاف ملاحظہ ہو!) اور اپنی وڈیو میں انہی صفحات کو جلانے کی وڈیو اپ لوڈ کی۔ اس کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے اسے اجازت دی تھی۔
سویڈن، ڈنمارک، ہالینڈ یورپ کے چھوٹے ممالک ہیں رقبے اور آبادی کے لحاظ سے۔ سمجھ لیجیے کہ 2 ارب مسلمانوں کے جذبات سلگانے والے یہ 3 ملک کراچی، لاہور سائز کے لگ بھگ ممالک ہیں، جو ایک عظیم، کثیر اور اخلاقی اعتبار سے برتر تہذیب کی حامل آبادی کو للکار رہے یں۔ دنیا پر غلبہئ اسلام کی طویل تاریخ دیگر مذاہب کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی اور احترام کی تاریخ ہے۔ رومی سلطنت نے مخالفین کو مشعلوں سے جلاکر راکھ کیا، ریت کی بوریوں میں بھرکر (مقدونی مجلس کی قرارداد پر) سمندر کی گہرائیوں میں ڈال دیا۔ فارسیوں نے عیسائیوں پر شدید مظالم ڈھائے۔ اس کے برعکس اسلام نے انسانوں کو ظلم واستبداد سے نجات بھی دلائی۔ اہلِ کتاب کو ان کے مذہب پر باقی رکھا۔ کسی فرد کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کیا۔ حتیٰ کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے غیور اور پرہیبت حکمران نے اپنے عیسائی غلام سے صرف کہا کہ اگر تم مسلمان ہوجاؤ تو مسلمانوں کے معاملات میں تم سے مدد لیا کروں۔ غلام نے انکار کردیا تو آپ نے فرمایا: ’دین اسلام میں زبردستی نہیں۔‘ (البقرہ: 256) اور جب آپ کی وفات قریب ہوئی تو اسے آزاد کردیا کہ تمہاری جہاں مرضی ہو چلے جاؤ! آزادیئ عقیدہ بارے اسلاموفوبک مغرب والے اسلام کی شاندار روایات سے آگاہ رہیں اور اپنی حرکات کی شناعت پر خود ہی غور فرمائیں۔
محمد غزالی لکھتے ہیں: دنیا والوں کے لیے جس مذہبی آزادی کا اسلام ضامن ہے، پانچوں براعظموں میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مستقل طور پر کسی دین کی عالمی گرفت رہی ہو اور اپنے مذہبی مخالفین کو ترقی وبقا کے وہ اسباب مہیا کیے ہوں جنہیں اسلام نے پیش کیا۔‘ اس آئینے میں ’آزادیئ اظہار‘ کے نام پر مکروہ اور ناپاک تسلسل اور وہ غنڈہ گردی جو ان راسموسوں نے دنیا بھر میں اٹھا رکھی ہے، ملاحظہ فرمائیے۔ دنیا یہ جان رکھے کہ اس کائنات کے خالق ومالک، اللہ کی ذاتِ عالی الحق ہے۔ نبوت اور پیغمبروں کا تسلسل حق ہے۔ اللہ کے بھیجے صحائف وکتب برحق اور شعائر اللہ ہیں۔ تمہاری تحریف شدہ کتب (تورات وانجیل) کی حرمت پر ہاتھ ڈالنے کا تصور بھی کوئی مسلمان نہیں کرسکتا اور نہ تمہاری 20 سالہ ان کریہہ حرکات کے باوجود کسی نے ایسا کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ قرآن حکیم لاریب کتاب ہے جو 14 صدیوں سے زائد گزر جانے پر بھی ادنیٰ ترین ردوبدل سے پاک کتاب اللہ ہے، اس کی اہانت نعوذ باللہ، اہانتِ رسولؐ، اہانتِ جبریل امینؑ، اور اللہ کی شانِ عظمیٰ میں بدترین جسارت ہے، امت کی توہین ہے۔ یہ اشتعال انگیزی امن عالم کے لیے خطرہ ہے۔
ریمنڈ ڈیوس امریکا کا حقیر ہرکارہ تھا، جس نے پاکستانیوں کے قتل کا ارتکاب کیا۔ امریکا نے جھوٹ بول کر اسے سفارتی استثناء کا حقدار ٹھہرایا اور بلاجواز واپس مانگا اور ہم نے گھگھیا کر دے بھی دیا۔ مگر اللہ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی شان مسلمانوں کی دکھتی رگ ہے۔ اسے مت چھیڑو باربار …… (افغانستان میں انجام) 15 اگست 2021ء یاد رکھو! اس وقت مغرب کو اپنے بدباطنوں، تنگ نظر انتہاپسندوں اور مذہبی جنونیوں کو لگام دینے کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی۔ ہمارے توہین رسالتؐ قانون پر جلے پیر کی بلی کی طرح تڑپنے پھڑکنے والوں کو اپنے گھر کی خبر لینے کی ضرورت ہے۔