ا سے کشمیریوںکی بد نصیبی اور بد قسمتی کا نام دیا جا سکتا ہے یا ہماری کوتاہیوں اور غلط فیصلوں اور مواقع سے بروقت فائدہ نہ اُٹھانے کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ کشمیریوں کی لازوال تحریک آزادی ابھی تک کامیابی سے ہم کنارنہیں ہو سکی ۔ سات عشروں سے جاری اُن کی جدوجہدِ آزادی قربانیوں کی ایسی داستان بنی ہوئی ہے جس کی قوموں کی تاریخ میں مثال ملنی مشکل ہے ۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی قربانیاں ہو سکتی ہیں کہ ایک خطہِ ارض پر بسنے والے لاکھوں افراد اپنے اوپر مسلط کی جانے والی غلامی اور جبر و استبداد کے خلاف اتنے طویل عرصے سے برسر پیکار ہوں لاکھوں افراداپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہوں بستیوں اور آبادیوں کے قبرستان شہیدوں کی قبروں سے بھرے پڑے ہوں، ظلم وستم اور جبرو استبداد کا بازار گرم ہو اوراسکے خلاف ہڑتالیں احتجاجی مظاہرے، خونریز ہنگامے اور جلسے جلوس روز کا معمول بنے ہوئے ہوں لیکن پھر بھی اس خطہ ارض پر بسنے والے آزادی، خودمختاری اور اپنی منزل مقصود کو پانے سے محروم ہوں۔
بلا شبہ ہم کشمیریوں سے جو پچھلے سات عشروں سے زائد عرصے سے بھارتی مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں، اظہار یک جہتی کے لیے پچھلی صدی کے نوے کے عشرے کے ابتدائی برسوں سے ہر سال 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منا رہے ہیں۔کیا تو کیا ہمارا معمول کا یوم یکجہتی کشمیر منانا جس میں تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے مذاکروں، سیمینارز، احتجاجی جلسوں ، جلوسوں اور ریلیوں کا انعقاد اور کوہالہ پل اور بعض دوسرے مقامات پر ہاتھوں کی طویل زنجیریں بنانا اور پنڈی، اسلام آباد اور ملک کے دوسرے بڑے شہروں کی سڑکوں پر کھمبوں پر بینرز اور ہورڈنگز لگا دینا کافی ہوگا۔اگر اتنا کچھ کافی ہوتا تو آزادی کشمیر کی منزل اب تک قریب بلکہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے دیرینہ خواب کی تعبیر بھی سامنے آچکی ہوتی۔ یقینا ہمارے لیے اس سے بڑھ کر اقدامات کرنے اور مودی سرکار کے کشمیر کے بارے میں یک طرفہ طور پر کیے جانے والے ظالمانہ فیصلوں اور اقدامات کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کا موقف بڑا مضبوط اور مبنی پر انصاف ہے ۔ اس کو سمجھنے کے لیے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا مختصراً تذکرہ کرنا کچھ ایسا بے جا نہیں ہوگا۔کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور ڈوگرہ راج کے خلاف ان کی بغاوت کے بارے میں یہ کہنا شاید غلط نہ ہوکہ یہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی انگریزی راج سے آزادی کی تحریک کے شانہ بشانہ شروع ہو گئی تھی۔ مارچ 1931ء میں کشمیر میںڈوگرا راج کے خلاف مسلمان مظاہرین کو نشانہ بنایا گیا تو پورے کشمیر میں مسلمان احتجاج کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ مارچ 1940ء میں لاہور میں قرار داد پاکستان کی منظوری کے چار ماہ بعد جولائی 1940ء میں کشمیری مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے کشمیر کی آزادی کے لئے باقاعدہ قرار داد منظور کی۔ اور اپنے قائد احرار ملت چودھری غلام عباس مرحوم کی قیادت میں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کو اپنی منزل قرار دیا۔ 3 جون 1947ء کو تقسیمِ ہند کے منصوبے کا اعلان ہوا جس میں ہندوستان کی نیم خو د مختار ریاستوں کو جو براہِ راست تاجِ برطانیہ کے ماتحت تھیں یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور اپنے عوام کی خواہشات کا خیال رکھتے ہوئے بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکیں گی یا اپنی نیم خود مختار حیثیت برقرار رکھ سکیں گی۔ کشمیر کا ڈوگرا ہندو حکمران مہاراجہ ہری سنگھ جو کشمیری مسلمانوں کی آزادی کے لیے شروع کی جانے والے تحریک کی بنا پر مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتا تھا وہ کسی صورت میں کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں چاہتا تھا۔ اس صورت حال کو سمجھتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل جمو ں و کشمیر مسلم کانفرنس نے 19 جولائی 1947 ء کو واضح لفظوں میں یہ مطالبہ کیا کہ ’’چونکہ جغرافیائی ، مذہبی ، تاریخی اور ثقافتی ہر لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ ریاست جمو ں و کشمیر اور گلگت و لداخ کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہو لہٰذا مہاراجہ ہری سنگھ کو خبردار کیا جاتا ہے کہ اگر اُس نے اس کے برعکس کوئی فیصلہ کیا تو کشمیری عوام اُس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونگے‘‘۔
14 اگست 1947ء کو ہندوستان میں دو آزاد مملکتوں پاکستان اوربھارت کے وجود میں آنے کے بعد کشمیرکے پاکستان سے الحاق کے کشمیری مسلمانوں کے مطالبے میں اور شدت آگئی اور پورے کشمیر میں مسلمان اس مطالبے کے حق میں ڈوگرا راج کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ پاکستان سے ملحقہ کشمیر کے علاقوں کو ڈوگرا راج سے آزاد کرا لیا گیا اور 24 اکتوبر 1947ء کوآزاد کشمیر حکومت کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ ڈوگرا حکمران مہاراجہ ہری سنگھ شروع میں کشمیر کے بھارت کے الحاق کے حق میں بھی نہیں تھا لیکن بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو ،گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن اور بھارتی وزیر داخلہ سردار پٹیل کے دبائو پر اس نے 26 اکتوبر 1947ء کو کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ اور اسکے ساتھ ہی بھارتی فوجیں جو پہلے خفیہ طور پر ڈوگرا مہاراجہ کی حمایت کے لئے کشمیر میں موجود تھیں اب کھلم کھلا مسلمان مجاہدین کوکچلنے کے لیے حرکت میں آگئیں۔پاکستان کو بھی اپنے فوجی دستے کشمیر میں بھیجنا پڑے یکم جنوری 1948ء کو بھارت کشمیر کا تنازع اقوام متحدہ میں لے گیا ۔اقوام متحدہ کی کوششوں سے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی ہو گئی اورطے پایا کے کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہونگے اورآزادانہ رائے شماری کے ذریعے پاکستان یا بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کر سکیں گے۔ بھارت شروع میں اقوام متحدہ کی قرادادوں پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہانیاں کراتا رہا لیکن بعدمیں وہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے کر ان قراردادوں سے منحرف ہو گیا۔
مسئلہ کشمیر کے اس پس منظر اور پیش منظر اور معروضی حالات و واقعات کے تذکرے سے یقینا اس مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن سچی بات ہے کہ یہ سب نصابی باتیں ہیں اس وقت عملاً صورت حال یہ ہے کہ ہم ایکطرح کے LOOSER (نقصان اُٹھانے والے) اور بھارت WINNER بنا ہوا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس کی جیت کو ہار میں کیسے تبدیل کر سکتے ہیں۔جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل در آمد ہو اور کشمیریوں کو حق خودارادیت کے تحت آزادانہ رائے شماری کا حق ملے اور وہ پاکستان یا بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کرنیکا فیصلہ کرلیں۔ دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عالمی رائے عامہ دن بہ دن ہمارے اس موقف کا جو ہر لحاظ سے جائز اور مبنی پر حقائق اور انصاف ہے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بہت سارے اسلامی ممالک بھی مسئلہ کشمیر پر ہماری حمایت سے دست کش ہو چکے ہیں۔
یہ درست ہے کہ جہاں بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے اور کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کُچلنے کے لیے اپنی سات لاکھ فوج مقبوضہ وادی میں تعینات کر رکھی ہے۔وہاں مقبوضہ وادی میں بھارت کے خلاف احتجاجی مظاہرے، ہڑتالیں، جلسے جلوس اور ہنگامے روز کا معمول ہیں۔بھارتی درندوں کے ہاتھوں جب بھی کوئی کشمیری نوجوان شہید ہوتا ہے تو کشمیریوں کا جذبہ حریت اور بھارتیوں سے نفرت اور پاکستان سے محبت کا اظہار دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ شہید کے جنازے میں جہاں ہزاروں کی تعداد میں افراد پاکستان کے حق میں نعرے بلند کر تے ہوئے شریک ہوتے ہیں وہاں شہید کے تابوت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر لحد میں اتارا جاتا ہے۔ کشمیری یقینا کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ وہ بھارت سے آزادی چاہتے ہیں اور الحاق ِ پاکستان ان کی آخری منزل ہے۔ اس کا تازہ ثبو ت ابھی انہوں نے 26 جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر بہم پہنچایا۔پوری مقبوضہ وادی میں ہڑتال رہی، احتجاجی مظاہرے اور جلسے جلوس منعقد ہوئے اور پاکستان کے حق میں نعرے بلند کئے گئے۔ یہ سب اپنی جگہ لیکن یہ سوال موجود ہے کہ کشمیریوں کی یہ جدوجہد کب کامیابی سے ہم کنار ہوگی اور اس کے لئے سروں کی کتنی فصلیں کٹنے کا انتظار کرنا پڑے گا اس کا جواب پاکستان سمیت عالمی برادری کے ذمہ ہے۔