دوسرے ممالک میں اگر کوئی بندہ ظلم و زیادتی کا شکار ہوجائے تو وہ بہت اعتماد سے کہتا ہے کہ اب میں تم سے عدالت میں ملوں گا۔ لیکن جب پاکستان کی بات آئے تو یہاں مظلوم کی زبان پر ایک ہی بات ہوتی ہے۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، ان شاء اللہ قیامت والے دن سچ کا فیصلہ ہوجائے گا یا پھر اس دن انصاف ہوگا یا اللہ کی عدالت سے مجھے انصاف ملے گا۔ کہنے کو تو یہ ایک جملہ ہے لیکن اگر اس کی گہرائی میں جھانکا جائے تو اس سے زیادہ خوفناک جملہ کوئی نہیں ہوسکتا کیونکہ انصاف کے تقاضے دنیا میں پورے کرلیے جائیں تو بہتر ہے اور کسی بھی ناانصافی کی صورت میں معاملہ دنیا میں ہی رفع دفع کرلینا چاہیے کیونکہ جب بات روز حشر تک چلی گئی تو خسارہ ہی خسارہ ہے سوچیں نہ آپ اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کے لیے جج یا وکیل کورشوت دے سکیں گے نا گواہ خریدے جا سکیں گے۔ بس اسی شہنشاہ، منصف اعظم ، احکم الحاکمین کی حکومت ہوگی جو سریع الحساب ہے۔ ذرا اس عدالت کا تصور کریں ، نامہ اعمال کی فلم چل رہی ہوگی ایک ایک کرکے سب مظلوم سامنے آئیں گے اور آپ اپنے دفاع میں ایک لفظ نہیں بول سکیں گے کیونکہ آپ کے ہاتھ پائوں ، ناک ، کان ، زبان ، آنکھیں سب آپ کے خلاف گواہی دیں گے۔پھر جب اللہ کی عدالت میں فیصلہ صادر کیا جائے گا تو اس پر عمل درآمد کرنے والے اللہ کے حکم کو بجا لانے میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں کریں گے۔ بس جب بھی کسی مظلوم سے واسطہ پڑے تو اپنا معاملہ رفع دفع کرلیں اسی میں عقلمندی ہے نہیں تو وہاں آپ کے کوئی ہتھکنڈے سفارش چالاکیاں کام نہیں آئیں گی۔ ہمارا قبلہ درست کرنے کے لیے اس منصف اعظم کی عدالت اور روز حشر کا ایک تصور ہی کافی ہے۔
نامور وقلمکاراور معلم عاطف بٹ کہتے ہیں کہ
پاکستان میں قانون و انصاف کا ذکر صرف کتابوں میں ملتا ہے، لہٰذا یہاں ایک عام آدمی کا واحد سہارا مذہب ہے جس کی بنیاد پر وہ ہر طرح کا ظلم اور
جبر برداشت کرتا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب اسے وہ پھل ملے گا جو ان تمام دکھوں اور تکلیفوں کا نعم البدل ہوگا۔ اگر کسی بھی طرح عام آدمی کا مذہب سے جذباتی تعلق اور روزِ حساب پر اس کا ایمان ختم کردیا گیا تو صورتحال اتنی بگڑ جائے گی کہ پھر کوئی بھی اس پر قابو نہیں پا سکے گا۔
ارد گرد خبروں پر نظر دوڑائیں تو کہیں معصوم حوا کی بیٹی 3 وحشی درندوں کی بھینٹ چڑھ کر راہی عدم ہوئی تو کہیں عدالت میں کسی بااثر کو تمام گواہوں اور ثبوتوں کے باوجود سزا معاف ہوگئی۔روز ایک سے بڑھ کر ایک ظلم و ناانصافی کی خبر عام ہوتی ہے مگر اس نظام کو بدلنے یا ہمارے ضمیر جھنجھوڑنے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ شائد ہم سب ایک جمود کا شکار ہیں ہم بے حسی کی برفباری میں جمتے جارہے ہیں اور ذہنی طور پر ہم اس قدر مفلوج ہیں کہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتے۔ یاد رکھیں حساب تو ہمارا بھی ہوگا اس بے حسی کا۔ سمجھ نہیں آتی کہ اللہ نے تو انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا۔ پھر یہ خود کیوں شیطان بننے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی انسان کے مال کو ناجائز طریقہ سے حاصل کرنے کے متعلق قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ کسی کی زمین پر قبضہ کرنا: کسی کمزور یا غریب کو دبا کر اس کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا بھی ظلم اور بہت بڑا گناہ ہے۔ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: اگر کسی شخص نے ایک بالشت زمین بھی کسی دوسرے کی ظلماً لے لی تو سات زمین کا طوق اس کی گردن میں پہنایا جائے گا (بخاری)
جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکوٰۃ(اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دیئے جائیںگے ، اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ ‘‘(مسلم: باب تحریم الظلم)
اگر ہم خود کسی پر ظلم نہیں کر رہے تو پھر بھی ہماری بطور مسلمان ذمہ داری ہے کہ ہم انصاف کے حصول کے لیے مظلوم کی حتی الامکان مدد کریں خواہ ہم استاد ہو، وکیل ہوں ، صحافی ہوں یا کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں اپنے ارد گرد مظلوموں کی داد رسی کا ذریعہ بنیں اپنے ملکی قوانین اور اپنی استطاعت کے مطابق ان کو انصاف دلانے کی جدو جہد کریں۔ یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہئے کہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتے ہیں، پھر جب اچانک اس کو پکڑتے ہیں تو اس کو بالکل نہیں چھوڑتے۔ پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ترجمہ’’ اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ شہروں کو پکڑتے ہیں جبکہ وہ ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں، یقینا اس کی پکڑ بڑی دردناک ہے(بخاری ومسلم)۔
اگر ہم روز محشر اصحاب الیمینہ میںشامل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں آج سے مظلوموں کی مدد کا آغاز کرنا ہوگا چاہے وہ علمی یا قلمی، مالی ہو یا علمی۔ بس ارادہ پختہ ہونا چاہیے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں ہزاروں بے بسی کا شکار انسان نظر آئیں گے جو اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے کسی غیبی مدد کے منتظر ہیں آپ ان کے لیے مسیحا بن جائیں۔
یاد رکھیں ! یہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے اصل منزل تو آخرت ہے اور وہاں کامیابی اسی صورت میں ممکن ہے جب ہمارے پاس نیکیوں بھرا زاد راہ ہو۔کیا پتہ کس مظلوم کی داد رسی قیامت والے دن آپ کانامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دئیے جانے کا سبب بن جائے۔