قومی سکلز یونیورسٹی اسلام آباد کے بانی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد مختار ہیں۔ پروفیسر صاحب جن یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر یا جن اداروں کے سربراہ رہے ہیں اُن اداروں یا یونیورسٹیوں میں نمایاں کارکردگی نظر آتی ہے۔ اپنے ادارے یا یونیورسٹی کو بہتر سے بہتر سطح پر لے جانے کا جنون پروفیسر صاحب کے مزاج کا ڈی این اے ہے۔ وہ جب سے قومی سکلز یونیورسٹی اسلام آباد کے اولین وائس چانسلر مقرر ہوئے ہیں اُس وقت سے اب تک اِس نئی یونیورسٹی نے بہت زیادہ علمی و تعلیمی مائیلج حاصل کی ہے اور پرانی یونیورسٹیوں میں اپنا مقام پیدا کیا ہے۔ گزشتہ دنوں نیشنل سکلز یونیورسٹی اسلام آباد کے زیرانتظام انٹرنیشنل ایجوکیشن ڈے پر ایک ورچوئل سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک بھر سے کئی نامور شخصیات جن میں وائس چانسلرز، سول سوسائٹی، ماہرین تعلیم، محققین اور علمی شخصیات سمیت طلباء و شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ انٹرنیشنل ایجوکیشن ڈے کے مذکورہ سیمینار میں شرکت کرنے والی چند شخصیات میں کوہسار یونیورسٹی مری کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سید حبیب بخاری، فاٹا یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب، قائداعظم میڈیکل کالج کے پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال، فرسٹ لیڈی کے ایڈوائزر زاہد اصغر، سول سوسائٹی کی ایک نمایاں شخصیت گل زیب اور راقم الحروف وغیرہ شامل تھے۔ سیمینار کے موضوعات کے انتخاب اور اِس کے انعقاد کے تمام مراحل کی کامیابی کی وجہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد مختار کی ذاتی دلچسپی اور ان تھک محنت تھی۔ اِس موقع پر راقم الحروف نے اپنی گفتگو میں چند گزارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں گزشتہ 75برس سے تعلیم اور اس کی بہتری کے لیے صرف زبانی جمع خرچ کیا جارہا ہے۔ تعلیم کی کمی اور اس کی ناپائیداری کا غم اہلِ وطن کو صرف ایک فیشن کے طور پر سنایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ساڑھے سات دہائیوں بعد ملک میں تعلیم فائدے کے بجائے نقصان دہ بھی ثابت ہورہی ہے۔ تعلیم کے اس نقصان کا سامنے آنے والا ایک ثبوت تعلیم یافتہ لوگوں کا برس ہا برس سے بے روزگار ہونا ہے۔ یہ خبریں تو اکثر ہی ہم پڑھتے رہتے ہیں کہ ایک نائب قاصد کی آسامی کے لیے بہت سے ایم اے پاس امیدوار بھی درخواست دیتے ہیں۔ یہ سب اس لیے کہ وہ ڈگری جو اِن نوجوانوں نے سولہ سترہ برس میں حاصل کی وہ عملی
دنیا کے تقاضوں کا چیلنج قبول نہیں کر سکتی۔ اس میں قصور اِن نوجوانوں کا بھی ہے جنہوں نے عملی دنیا کے تقاضوں کو نہیں سمجھا مگر اُن سے زیادہ قصور حکومتوں کی تعلیمی منصوبہ بندی میں مجرمانہ عدم دلچسپی کا ہے۔ پچھلی دہائیوں میں دنیا کے اندر ہرشعبے میں بے پناہ تبدیلی آچکی ہے اور تعلیمی شعبہ بھی اِن تبدیلیوں سے الگ نہیں ہے۔ اگر غور کیا جائے تو 75برس پہلے کی تعلیم، اُس کا نصاب، طریقہ تدریس اور طریقہ امتحان وغیرہ سب کچھ بدل گیا ہے۔ چند دہائیوں پہلے کی اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں آج کے زمانے میں محض ایک کاغذ کا پرزہ ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اب تعلیم کی تعریف یعنی ڈیفی نیشن بھی بدل چکی ہے۔ جو شعبہ جدید تقاضوں کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں کرتا وہ آہستہ آہستہ بیکار ہو جاتا ہے یا ختم ہو جاتا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کے ساتھ بھی جان بوجھ کر یہی کچھ کیا گیا ہے۔ بہت زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ہم اب بھی تعلیم کے حوالے سے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کا نہیں سوچ رہے بلکہ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے تعلیمی میدان میں بھی لسانی اور صوبائی معاملات کو ڈال دیتے ہیں۔ اِس حوالے سے راقم الحروف نے تجویز دی کہ کسی بھی شعبے کا جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جدید تقاضوں سے مسلسل آگاہ رہا جائے جس کے لیے تحقیقی شعبوں کا دن رات مسلسل تندہی سے کام کرنا ضروری ہے۔ ہم لوگوں کے اندر تحقیق اور ریسرچ کا مزاج ختم ہو گیا ہے جس کی بنا پر ہم اپنے معاملات دوراندیشی کے بجائے ’’ڈنگ ٹپائو طریقے‘‘ سے نمٹاتے ہیں۔ ویسے تو ہمارے ہاں یہ بات کہی جاتی ہے کہ تعلیم کے لیے مختلف تحقیقی کام ہوتے رہتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو یہ سب تحقیقی کام اپنی نوکریاں جاری رکھنے، گریڈ لینے یا انٹرنیشنل فنڈز حاصل کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ اِن تحقیقی کاموں پر وقت اور پیسہ ضائع ہو رہا ہے۔ لہٰذا تجویز ہے کہ پاکستان کی پبلک یونیورسٹیاں خصوصی طور پر اور نجی یونیورسٹیاں عمومی طور پر پاکستان کے تعلیمی نظام کو موجودہ اور مستقبل کے انٹرنیشنل تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اپنے اندر ریسرچ سینٹرز قائم کریں۔ اِن ریسرچ سینٹرز میں وہ ماہرین کام کریں جو خود بھی ریسرچ کے جدید اور انٹرنیشنل طریقہ کار کو جانتے ہوں اور ان کے ماہر ہوں۔ اِن ریسرچ سینٹرز کے سامنے تین نکاتی ایجنڈہ ہو۔ پہلا یہ کہ موجودہ اور مستقبل کے جدید تقاضوں کے مطابق تعلیم کی تعریف یا ڈیفی نیشن کیا ہو؟ کیونکہ ایک زمانے میں جو افراد قرآن پاک پڑھ لیتے تھے یا گنتی کے چند ہندسوں کی جمع تفریق کرلیتے تھے وہ پڑھے لکھے کہلاتے تھے۔ اسی بات کو اگر ہم موجودہ دور میں لے کر آئیں تو وہ ان پڑھ افراد جو موبائل فون استعمال کرتے ہیں اور اپنے تھوڑے بہت ضروری کام موبائل فون کے ذریعے کرلیتے ہیں کیا وہ بھی تعلیم یافتہ کہلائیں گے؟ اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں فخر سے کہنا چاہیے کہ پاکستان کی نوے فیصد آبادی تعلیم یافتہ ہے کیونکہ 22کروڑ افراد کے ملک میں تقریباً 20کروڑ موبائل فون زیراستعمال ہیں جبکہ حقیقی معنوں میں ہم اِن سب کو تعلیم یافتہ نہیں کہہ سکتے۔ اس لیے مجوزہ ریسرچ سینٹرز کو پہلا کام یہ کرنا ہوگا کہ تعلیم کی موجودہ اور جدید تقاضوں کے مطابق ایسی تعریف یا ڈیفی نیشن تیار کریں جو انٹرنیشنل سطح پر بھی قابل قبول ہو۔ دوسرا کام اُس تعریف اور ڈیفی نیشن کے تحت دی جانے والی تعلیم کا مقصد طے کرنا ہوگا کیونکہ پہلے ایک جیسی تعلیم سب طالبعلم حاصل کرتے تھے لیکن اب سب طالبعلموں کو ایک جیسی تعلیم دینا بیکار ہے جس کا نتیجہ پڑھے لکھے نوجوانوں کی بے روزگاری کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ طالبعلموں کو اُن کے نفسیاتی رجحانات اور عملی دنیا کے طلب و رسد کے مطابق تعلیم دینا ضروری ہے۔ اِن ریسرچ سینٹرز کا تیسرا ضروری کام یہ ہونا چاہیے کہ یہ سب مراکز ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوں اور اپنی ریسرچ ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے رہیں تاکہ ریسرچ بامقصد ہو اور اووَرلیپ بھی نہ ہو۔ یہ رابطہ کاری انفارمیشن ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں انتہائی آسان اور تقریباً مفت ہے۔ اس کے علاوہ یہ ریسرچ ویب سائٹس کے ذریعے عام لوگوں کے لیے بھی دستیاب رہے۔ جب بھی یہ ریسرچ سینٹرز کسی حتمی تحقیق پر پہنچیں تو حکومت وقت اِن ریسرچ سینٹرز کی تحقیقی رپورٹ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی تعلیمی پالیسیوں کو مسلسل اپڈیٹ کرتی رہے۔ یہ ریسرچ سینٹرز حکومت کے لیے اہم ترین تھنک ٹینک ہوں گے جن کی رپورٹیں ایک بہت بڑے خزانے سے کم نہیں ہوں گی لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کون سی حکومت کرے گی کیونکہ ہماری حکومتوں کی ترجیح تو صرف حکومت حاصل کرنا، اُسے بچانا اور اپنے مخالفین کو نیست و نابود کرنا ہوتا ہے۔