سب سے پہلے تو جنرل عاصم منیر کو دلی مبارک باد کہ وہ سب پاکستانیوں کے لیے قابلِ فخر پاک فوج کے سربراہ اعلیٰ مقرر ہو چکے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ وہ جس دور میں آرمی چیف بنے ہیں، وہ پا کستان کی تا ریخ کا کٹھن ترین دور ہے۔ یوں کہیے کہ انہیں اب اپنی زندگی کے سخت ترین امتحان سے گزرنا ہو گا۔ ان کے سامنے جو مسائل کے پہاڑ ہیں تو سب سے پہلے ٹی ٹی پی کی دھمکی کی بات کر لیتے ہیں یعنی وطن عزیز پر بھی کیسا کڑا وقت آن پڑا ہے کہ ایک مصیبت ٹلتی نہیں کہ دوسری سر اٹھا لیتی ہے۔ سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے گرداب میں غوطہ زن پاکستان کو کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) نے رواں برس جون میں حکومت کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کو ختم کرتے ہوئے اپنے عسکریت پسندوں کو ملک بھر میں دہشت گردانہ حملے کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے کہا گیا کہ ہم نے مسلسل صبر کا مظاہرہ کیا ہے تاکہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ نہ کیا جائے لیکن فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے حملے جاری ہیں اس لیے اب ہمارے جوابی حملے بھی پورے ملک میں شروع ہو جائیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ بسا اوقات ہاتھوں کی دی ہوئی گانٹھیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں اور ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان اسی کیفیت سے دوچار ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جنگ بندی معاہدے کے باوجود دہشت گرد حملے ہوتے رہے، جس پر نیشنل ایکشن پلان کے دوبارہ شروع کیے جانے کے مطالبات بھی سامنے آئے، جس کی ضرورت اب مزید بڑھ گئی ہے کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔ تجزیہ نگاروں کی جانب سے تحریک طالبان کی دہشت گرد حملوں کی دھمکی کو نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ممکنہ پالیسیوں کی پیش بندی کے طور پر لیا جانے والا اقدام قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ جنرل عاصم منیر ایک پیشہ ور سپاہی ہیں جو دہشت گردی کے خلاف ماضی میں کی گئی ساری کارروائیوں کا حصہ رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے مذموم مقاصد ناکام بنانے کے لیے وہ سخت سے سخت اقدام سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ پاک فوج ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کیلئے جس عزم صمیم سے ملک دشمنوں کے خلاف برسر پیکار رہی ہے نئے آرمی چیف کی قیادت میں وہ اس ضمن میں بہادری کی نئی تاریخ لکھے گی۔
قارئین کرام، جنرل عاصم، جنہوں نے نومبر کے آخری ایام میں پاک فوج کی کمان سنبھالی ہے، وہ اب پاک فوج کے 17 ویں سربراہ بن گئے ہیں۔ پاک فوج میں کمان تبدیلی کی تقریب جی ایچ کیو میں ہوئی، اس اہم تقریب میں چیئرمین جوائنٹ
چیفس آف سٹاف کمیٹی، مسلح افواج کے سربراہان، سینئر حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران، ان کی فیملیز کے علاوہ وفاقی سیکرٹریز اور دیگر مہمان بھی شریک تھے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کا عمل آئین اور قانون کے مطابق انتہائی خوش اسلوبی سے سرانجام پایا، اس اہم تقرری کے بعد وہ تمام افواہیں بھی دم توڑ گئیں جو کہ اس ضمن میں پھیلائی جا رہی تھیں۔ پاکستان کے سیاسی اور معاشی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو غیر یقینی اور عدم استحکام کے بادل چھائے ہوئے ہیں، موجودہ اتحادی حکومت ملک کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہے، بلاشبہ حکومت ملکی معیشت کی بحالی کے لیے دن رات ایک ہوئے ہے، گو کہ اس ضمن میں کافی حد تک کامیابی بھی ملی ہے، لیکن دوسری جانب ملکی جاری سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت کی بحالی میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کا عنصر نامناسب وقت پر آیا ہے پاکستان کے لیے یہ خطرناک وقت ہے، کیونکہ ٹی ٹی پی کی دھمکی ایک جانب تو دوسری جانب آئی ایم ایف کی مذاکراتی ٹیم کی ملک میں آمد اور مذاکرات کا عمل ابھی باقی ہے، کہا جاتا ہے کہ مجوزہ لانگ مارچ کی وجہ سے وفد نے اپنی آمد کچھ دنوں کے لیے آگے بڑھا دی ہے، جب کہ سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کادورہ پاکستان بھی ملتوی ہوا ہے۔ سیاسی میدان میں محاذ آرائی کا سلسلہ جاری ہے، جیسا کہ تحریک انصاف کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے فواد چودھری نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کی توثیق کر دی ہے۔ سندھ اور بلوچستان سے ہمارے ممبر اپنے استعفے جمع کرائیں گے، سپیکر قومی اسمبلی کو ممبران کے استعفے منظور کرنے کا کہا جائے گا، جب کہ مسلم لیگ ن پنجاب کے صوبائی پارلیمانی ایڈوائزری گروپ نے حمزہ شہباز کی سربراہی میں 2 گھنٹے سے زائد بھرپور مشاورت کی اور عمران خان کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے منصوبے کو روکنے کے لیے پنجاب میں گورنر راج لگانے سمیت دیگر آپشنز بھی زیر غور آئے، اگر دو صوبائی اسمبلیاں ٹوٹتی ہیں، تو الیکشن کمیشن کے مطابق ایک حلقے میں پانچ تا سات کروڑ روپے کے اخراجات انتخابات منعقد کرانے پر آئیں گے۔ ایک ایسے وقت میں جب تاریخ کے بدترین سیلاب نے ملک کی معیشت کی کمر توڑ دی ہے، الیکشن میں جانا ملکی معیشت کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو گا۔ اس طرح ملک میں تصادم بڑھے گا۔ مسلسل انتشار اور افراتفری کے ماحول میں ملکی معیشت مسلسل زوال کا شکار ہے۔ ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ اگر اس طرح کی سیاسی ہٹ دھرمی معمول بن گئی تو کیا معیشت ٹھیک ہو جائے گی؟ بدقسمتی سے، اس سوال کا کوئی حتمی جواب نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کو قبل از وقت انتخابات کرانے پر مجبور کرنے کے لیے لوگوں کو جمع کرنے کا اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان پر بیرونی قرضے کا تناسب بڑھ گیا
ہے اور تباہ کن سیلابوں کے نتیجے میں زرعی شعبہ تقریباً دائمی جمود کا شکار ہو رہا ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ دوسری جانب، جیسا کہ اوپر ضبطِ تحریر میں لایا جا چکا ہے، تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جاری اعلامیہ میں سیز فائر ختم کرنے اور پورے ملک میں حملے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ٹی ٹی پی کے سیز فائر ختم کرنے کے اعلان کی ٹائمنگ بہت معنی خیز ہے، ایسا لگتا ہے کہ پاکستان دشمن طبقہ حالات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ اور مائنڈ سیٹ برسوں سے دہشت گردوں کو گلورفائی کرنے میں مصروف ہے، جب افغانستان پر طالبان نے قبضہ کیا تو پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو یہ استدلال پیش کر رہے تھے کہ افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہو گئی تو بھارت کا وہاں اثر ختم ہو جائے گا۔ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں گے لیکن ہوا یہ کہ طالبان نے اقتدار میں آتے ہی جیلوں میں بند پاکستانی طالبان کو رہا کر کے ہماری مشکلات میں اضافہ کر دیا۔ پاک افغان سرحد پر جھڑپیں معمولی بن چکی ہیں، یہ ایک الارمنگ صورتحال ہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت پر اضافی بوجھ پڑ رہا ہے، اقتدار کے لیے جاری کشمکش نے غریب عوام کی زندگی اجیرن ہی نہیں کی بلکہ ملک کی سلامتی کو بھی خطرہ سے دوچار کر رکھا ہے، رہی سہی کسر بڑھتی ہوئی مہنگائی نے پوری کر دی ہے جس کی وجہ سے عام شہری کی قوت خرید ختم ہو گئی ہے۔ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کسان، روزانہ اجرت کمانے والے مزدور اور متوسط طبقہ ہوشربا مہنگائی کی وجہ سے مالی مشکلات سے دوچار ہے۔ اسی تناظر میں کئی ممتاز ماہرین اقتصادیات نے معاشی بحالی کے لیے مختلف طریقہ ہائے کار کی یکجائی کے ذریعے جامع اصلاحاتی پیکیجز اور پائیدار ترقی پر زور دیا ہے۔ جی ڈی پی کی شرح نمو کو بڑھانے پر صرف توجہ مرکوز کرنا کافی نہیں ہو گا کیونکہ پاکستان کے مسائل زیادہ تر ساختی ہیں۔ پاکستان کا معاشی پروفائل ساکھ اور مالی استحکام کے بین الاقوامی پیمانے پر مستحکم سے منفی تک گر گیا ہے۔ ملک سرکاری قرضوں کے خطرے میں بھی چوتھے نمبر پر ہے۔
قصہ کوتاہ یہ کہ ہما رے ملک کے موجودہ مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ وہ ایک کالم میں سموئے نہیں جا سکتے۔ بہرحال، جنرل عاصم کے درخشاں ماضی کو دیکھتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ یہاں بھی وطنِ عزیز کو مسائل کے پنجے سے نکال کر آسانیوں کی راہ پر ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔