ہر انسان کچھ خوبیوں اور کچھ خامیوں کا مجموعہ ہے۔ اپنے کردار اور مزاج میں موجود خامیوں کو سمجھتے ہوئے ان تمام خامیوںکی اصلاح کی کوشش کرنا مثبت تعمیری سرگرمی ہے، لیکن اگر اپنی خامیوں کی اصلاح کے بجائے دوسروں کی صلاحیتوں اور خوبیوں پر انسان جلنا اور کڑھنا شروع کر دے تو یہ احساس حسد کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ آج جن برائیوں کا شکار ہے ان میں سب سے اہم اور خطرناک ترین بیماری حسد ہے۔ حسد اور جلن جیسی کیفیات انسانی جذبات کا وہ حصہ ہیں جو انسان کے لیے زہر سے زیادہ مہلک ہیں۔ یہ شاید انسان کی سرشت میں لکھا ہے اس لیے اسے آغاز بنی آدم سے ہی بار بار اس موذی مرض سے بچنے کی تنبیہ کی جاتی رہی ہے۔ حسد ایک ایسی روحانی بیماری ہے جو آغازِ کائنات سے چلی آ رہی ہے اور ایمان کے ساتھ ساتھ بندے کے جسم کو بھی نا محسوس طریقے سے کھا جاتی ہے لیکن انسان اس سے نا واقف ہی رہتا ہے اور اس میں مبتلا ہو کر جہاں کبھی کبھار دوسروں کا نقصان کرتا ہے وہاں اپنا نقصان لازمی کر بیٹھتا ہے۔ تاریخ میں حسد کی سب سے بڑی مثال ہمیں برادرانِ یوسف کی ملتی ہے۔ حضرت یوسف ؑ اپنی بہترین عادات، اعلیٰ کردار اور بے مثال معصوم حسن کی وجہ سے اپنے والد حضرت یعقوب ؑ کی آنکھ کا تارا تھے۔ بھائیوں کو اپنے والدکی یوسف ؑ سے بے پناہ محبت ناگوار گزرتی تھی اسی سبب انھوں نے یوسف ؑ کے قتل کا ارادہ کیا جو بعد میں بڑے بھائی کے مشورے پر بدل دیا اور انھوں نے یوسف ؑ کو کنویں میں پھینکنے پر اکتفا کیا، مگر اس سب کے باوجود وہ والد کی آنکھ کا تارا بن سکے نہ یوسف ؑ کے مقام کو پہنچ سکے اور نہ انکا کچھ بگاڑ سکے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہی اسباب سے حضرت یوسف ؑ کو پیغمبری اور بادشاہی سے سرفراز کیا۔ حسد نفسیاتی امراض میں سے ایک مرض ہے اور ایسا غالب مرض ہے جس میں حاسد اپنی ہی جلائی ہوئی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ انسان کا نفس بنیادی طور پر دوسروں سے بلند و برتر رہنا چاہتا ہے۔ جب وہ کسی کو اپنے سے
بہتر حال و مقام پر دیکھتا ہے تو یہ چیز اس پر گراں گزرتی ہے، لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ یہ نعمت اس سے بھی چھن جائے۔ حسد کی جڑ اس دنیائے فانی کی محبت ہے۔ نبی کریم ؐ کو اندیشہ تھا کہ امتِ مسلمہ حسد کی لعنت میں مبتلا ہو جائے گی۔ چناچہ آپؐ نے فرمایا: عنقریب میری امت کو پہلی امتوں کی بیماری پہنچے گی، صحابہؓ
نے پوچھا، پہلی امتوں کی بیماری کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا، غرور، تکبر، کثرتِ حرص دنیا میں محو ہونا، ایک دوسرے سے حسد کرنا یہاں تک کہ بغاوت ہو گی اور پھر قتل بہت زیادہ ہو گا۔ حضرت آدم ؑ کی تخلیق کے بعد سب سے پہلا حسد ابلیس نے کیا۔ جب حضرت آدم ؑ کی عزت و تکریم کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا تو ابلیس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اس عزت و منصب کا حق دار تو میں ہوں، میں، جس نے اتنے عرصے عبادت کی، میں تو علم و فضل میں یکتا ہوں کہ استادِ ملائک ہوں، یہ آدم جو ابھی ابھی میرے سامنے تخلیق ہو رہا ہے یہ بھلا کہاں سے اور کس طرح صاحبِ عزت ہونے جا رہا ہے، اپنے منصب اور علم کے زعم میں ابلیس، حضرت آدم ؑ سے حسد کر بیٹھا۔ جس نے اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو مفقود کر دیا اور اپنی تخلیق آگ اور آدم ؑ کی مٹی سے کیے جانے کو عذر بنا کر اس کے سامنے پیش کر دیا جو دونوں کا خالق اور سب کچھ جاننے والا ہے، جو کسی سے کچھ پوچھنے کا روادار بھی نہیں۔ حسد نے عزازیل کو ابلیس بنا دیا اور پھر اس پر بس نہیں کیا، بلکہ آدم ؑ سے حسد کے باعث ان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رسوا کرنے کی خاطر انہیں دانہِ گندم کھانے پر اکسانے کا عمل بھی اسی حسد کا نتیجہ تھا۔ انسانوں سے اسی حسد کے باعث ابلیس قیامت تک کوشاں رہے گا کہ انسانوں کو صراطِ مستقیم سے بھٹکا کر اس مقام سے گرا دے۔ حسد ہی وہ پہلا گناہ ہے جس کے باعث آسمانوں پر اللہ تعالیٰ کی پہلی نافرمانی کی گئی۔ تو گویا حسد ان اولین گناہوں میں سرفہرست تھا جن پر گناہوں کی عمارت کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ سلسلہ پھر تھما نہیں، اسی حسد کی وجہ سے قابیل نے ہابیل کے ساتھ خونی رشتے کا لحاظ نہیں کیا اور اپنے سگے بھائی کو ہی قتل کر ڈالا۔ سرکارِ دو عالمؐ نے متعدد احادیث میں حسد کی مذمت بیان فرمائی ہے اور اسے بارہا تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا ہے۔ رسولِ خداﷺ نے فرمایا کہ کچھ لوگ حساب کتاب سے ایک سال پہلے دوزح میں چلے جائیں گے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا، یا رسول اللہﷺ وہ کون لوگ ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا امرا ظلم کی وجہ سے، عرب عصبیت کی وجہ سے، دہقان تکبر کی وجہ سے، تاجر خیانت کی وجہ سے اور علما حسد کی وجہ سے۔ قرآنِ کریم میں یہودیوں کے حسد کو کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے اور اس حسد کے سبب ہی امامت بنی اسرائیل سے چھین کر بنی اسماعیل کی جانب منتقل کر دی گئی تھی، اور اس انعام سے محرومی پر یہودی غیض و غضب کا شکار ہو کر حسد میں مبتلا ہو گئے تھے۔ ایسا کردار اور اخلاق رکھنا درحقیقت ابلیس کے نقشِ قدم پر چلنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں، کیونکہ حاسد کا حسد کسی صورت بھی اللہ کے فیصلے کو بدل نہیں سکتا۔ بقول شاعر: حسد کا رنگ پسندیدہ رنگ ہے سب کا/ یہاں کسی کو کوئی اب دعا نہیں دیتا۔ فرمانِ نبویؐ ہے کہ لوگ ہمیشہ خیر سے رہیں گے جب تک وہ ایک دوسرے سے حسد نہیں کریں گے۔ اگر ہو سکے تو حسد کرنے والوں کے ساتھ نیکی کریں ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کریں کیونکہ یہ نبی کریمؐ کی سنت ِ مبارکہ ہے کہ آپؐ نے طائف والوں کے لیے بھی دعا کی کہ اگر یہ لوگ نہیں باز آتے تو ہو سکتا ہے کہ انکی آنے والی نسلیں ایمان لے آئیںاور پھر تاریخ نے دیکھا کہ فاتح سندھ محمد بن قاسم طائف کے قبیلے سے تھا لہٰذا حاسد سے اچھا سلوک شاید اس کے اندر کے حسد کو ختم کرنے کا سبب بنے۔ ایمان والوں کے لیے سب سے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے دل کو حسد کی جلن، وسوسوں، غموں اور پریشانیوں سے محفوظ رکھیں، اگر کسی کو مشکل میں دیکھیں تو اس کا درد محسوس کریں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اللہ نے انہیں اس مشکل سے بچا رکھا ہے۔