سعادت حسن منٹو لکھتے ہیں کہ شیطان اتنا بڑا گستاخ تھا کہ سیدھا خدا کو کہہ دیا کہ میں نہیں کرتا سجدا اور مردود ہوگیااور خدا اتنا فراغ دل ہے کہ اس نے اختلاف رائے پر شیطان کو مارا نہیں بلکہ مہلت دی کہ اپنے نظریے پر لوگوں کو قائل کرسکتا ہے تو کرلے۔ لیکن خدا کے ماننے والے پتہ نہیں کس مٹی کے بنے ہیں۔
سیالکوٹ میں ہونے والے واقعہ پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔سمجھ نہیں آرہا کہ اس پر کیا لکھا جائے کیا نہ لکھا جائے لیکن اب لگتا ہے کہ مذہب کے نام پر اپنی دشمنی نبھانے والوں کو لگام دینا پڑے گی۔کب تک ہم مذہب کو بدنام ہوتے دیکھتے رہیں گے ۔ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا ہے کہ ہمارے ہاں ایک مذہبی جماعت جسے اب جائز قرا ر دے دیا گیا ہے کی بھینٹ 6سے زائد پولیس اہلکار چڑھ گئے ۔جن کے بچے آج بھی راہ دیکھ رہے ہیں کہ انہیں انصاف کب ملے گا ۔ہمارے وزیر اطلاعات و نشریات درست کہتے ہیں کہ ہم نے بہت سے ٹائم بم لگا رکھے ہیں اگر انہیں ڈی فیوز نہ کیا گیا تو یہ اسی طرح پھٹتے رہیں گے ۔اور یہ ٹائم بم بہت عرصہ سے پھٹ رہے ہیں ہر دوسرے کیس میں کوئی نئی بات سامنے آتی ہے جس پر تبصرہ کرنے والا بھی محفوظ نہیں رہتا ۔سیالکوٹ میں اس سے قبل بھی ایک دلخراش واقعہ ہو چکا ہے گو کہ اس واقعہ کا تعلق مذہب سے نہیں تھا لیکن وہ بھی اسی طرح دلخراش تھا کہ انسانیت کانپ کر رہ گئی تھی۔
مغیث اور منیب بٹ دو پاکستانی بھائی تھے جنہیں 15 اگست 2010 کو سیالکوٹ میں ہجوم کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا۔ الزام تو یہ بھی ہے کہ سیالکوٹ میں مقامی پولیس کے تعاون سے دونوں بھائیوں کو قتل، لٹکایا اور مسخ کیا گیا۔
لوگوں کے ہجوم نے دیکھا کہ وہاں پولیس اہلکار بھی موجود تھے جنہوں نے کوئی مداخلت نہیں کی۔ دو معصوم لڑکوں پر لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا تو لوگ وہیں کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک بھائی فرار ہو گیا اور مقامی انتظامیہ سے مدد کے لیے کہا گیا ، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور لڑکے کو ہجوم میں واپس کر دیا جہاں بالآخر اسے مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ دو بھائیوں کے وحشیانہ قتل کا واقعہ کچھ گواہوں نے ریکارڈ کرایا، جو بعد میں میڈیا کی طرف سے نشر. ہوا انہیں مسلسل مکے اور لاتوں کا نشانہ بنایا گیا اور لکڑی کے شہتیروں اور پتھروں سے مارا پیٹاگیا۔دونوں بھائیوں پر ڈکیتی اور قتل کا الزام لگایا گیا تھا۔ عدالتی تحقیقات سے پتا چلا کہ لڑکے الزامات سے بے قصور تھے اور جائے وقوعہ پر موجود پولیس اہلکار حملے کو روکنے میں ناکام رہے تھے۔ انسداد بدعنوانی کے ڈائریکٹر جنرل کاظم ملک کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جائے وقوعہ پر موجود پولیس اہلکاروں نے بھائیوں کے قتل کی حوصلہ افزائی کی۔قتل میں ملوث ملزمان میں سے ایک شمس علی نے دعویٰ کیا کہ اس نے یہ قتل سیالکوٹ کے سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر وقار چوہان کے کہنے پر کیا۔کچھ دن بعد یہ واقعہ پس پردہ چلا گیااگر اس وقت ایکشن لے لیا جاتا تو آج شاید یہ دلخراش واقعہ پیش نہ آتا ۔
واقعہ کیوں پیش آیا ابھی تک حقائق منظر عام پر آ رہے ہیں بظاہر ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ملازمین نے کسی بات پہ اپنا غصہ اتا را اور دوسرے ملازمین کو مذہب کے نام پر استعمال کر لیا ۔واقعہ اس وقت پیش آیا جب وزیرآباد روڈ پر واقع راجکو انڈسٹریز کے ملازمین نے سری لنکن پریانتھا کمارا پر توہین مذہب کا الزام لگاتے ہوئے احاطے میں احتجاج شروع کر دیا اس پر الزام یہ لگایا گیا کہ اس نے ایک پوسٹر پھاڑا ۔ مظاہرے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے لیکن ہجوم واضح طور پر ان سے زیادہ تھا جس سے وہ خاموش تماشائی بنے رہے۔واقعہ پیش آنے سے رک بھی سکتا تھا اگر وہاں پر موجود پولیس اہلکار روائتی سستی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے فوری طور پر مزید نفری طلب کر لیتے حکام بالا کو اطلاع دے دیتے لیکن ایسا نہ ہوا اور ہجوم نے توہین مذہب کا الزام لگا کر نہ صرف پہلے تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ بعد ازاں لاش بھی جلا دی گئی ۔
اس واقعہ کے بعد ایک اچھی چیز جو دیکھنے میں آئی جس سے حوصلہ ہوتا ہے کہ تمام قوم اس مسئلے پر ایک پیج پر ہے حکومت، فوج،اپوزیشن،مذہبی اور سماجی تنظیموں نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔ مذہبی رہنما ئوں کی جانب سے" واقعہ کی نہ صرف مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ اس واقعہ نے "اسلام کو بدنام کیا"۔اور اسلامی قوانین اور تعلیمات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔" مجرموں کو بربریت کی سزا ضرور ملنی چاہئے ۔
سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہم اسلام کا نام لے کر اسے دنیا میں بدنام کرتے رہیں گے ۔اور ہم خود ہی فیصلے کرتے رہیں گے ۔ہم اس دور میں رہتے ہیں جہاں قانون اس کام کے لئے موجود ہے کہ جرم ہوا یا نہیں لیکن افسوس ہم اسے بھی نہیں مانتے ماضی قریب میں جب آسیہ نامی خاتون کو عدالت نے جرم ثابت نہ ہونے پر بری کیا تھا تو ہماری کچھ مذہبی جماعتوں نے اودھم مچا کر رکھ دیا تھا گھیرائو جلائو بھی کیا جس میں کئی جانیں بھی گئیں اور املاک کو بھی نقصان پہنچا یا ۔اسی طرح کچھ عرصہ پہلے ایک ہجوم نے پشاوریونیورسٹی میں ایک طالب علم مشال خان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا تھا جب اس پر سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد شیئر کرنے کا الزام لگایا گیا تھا، یونیورسٹی اور پولیس حکام نے بتایا۔ساتھی طالب علم پر حملے کے دوران تقریباً 10 طالب علموں کے ایک گروپ نے "اللہ اکبر" کا نعرہ لگایا، جسے برہنہ کر دیا گیا اور تختوں سے اس وقت تک مارا پیٹا گیا جب تک کہ اس کی کھوپڑی جھک گئی الزام لگانے والے طلباء نے پھر اس کی لاش کو جلانا چاہا۔"ایسے ہی ایک واقعہ میں سلمان تاثیر بھی اپنی جان گنوا بیٹھے تھے ۔سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی رپورٹ اور مقامی میڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق، 1990 سے اب تک توہین مذہب کے الزام میں 65 سے زائدافراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ان میں بیشتر کیس میں ذاتی دشمنی کا عنصر تھا ۔
ابھی تک تو صورتحال یہ ہے کہ ایسا کوئی بھی واقعہ ہو ہمارے چند مذہبی رہنما ایسے بھی ہیں جو اپنی دکانداری چمکانے کے لئے عوام کو قانون ہاتھ میں لینے پر اکساتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا مذہب ہمیں قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت دیتا ہے۔جبکہ یہی لوگ بعد ازاں اپنے مطالبات تسلیم کروا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اس دورا ن ہلاک یا زخمی ہونے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا ۔ابھی بھی وقت ہے کہ بقول فواد چوہدری جو ہم نے چھوٹے چھوٹے ٹائم بم جگہ جگی چھوڑ رکھے ہیں اب ہمیں انہیں ڈی فیوز کرنا ہو گا ورنہ ایسے واقعات ہمیں دنیا میں شرمندہ کرواتے رہیں گے جیسا کہ آج قوم کہہ رہی ہے کہ سری لنکا ہم شرمندہ ہیں ۔