افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء کے بعد اب ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا یہ سوال اٹھانا نہایت برمحل ہے کہ: ’جعلی جنگ ختم ہوچکی۔ حکومت عافیہ کو واپس کیوں نہیں لا رہی؟‘ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ اس جنگ کا جعلی ہونا۔ ہمارا اس میں حصہ دار بننا۔ بھری کتاب میں پرویزمشرف کا فخریہ اقرار کہ امریکا کے ہاتھ قیدی اٹھا اٹھاکر بیچے۔ سچ کھل چکا۔ پچھلے دنوں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور، علی محمد خان نے یہ کہا تھا کہ: گوانتامو سے رہا ہونے والوں کو جلد واپس لایا جائے گا اور معاوضوں کی ادائی کی جائے گی۔ یہ تو وہ قیدی ہیں جو امریکا اب بوجوہ خود رہا کر رہا ہے اس میں ہمارا کمال نہیں۔ انہیں مشرف کی جائیدادیں بیچ کر معاوضے دینا بنتا ہے۔ عافیہ تو وہ مظلوم ہے جس کے لیے مسلمانوں کے شانہ بشانہ امریکی بھی رہا کروانے کے لیے مظاہرے کر رہے ہیں۔ عافیہ کے چیمپئین وزیراعظم (جو ایک وقت میں حکومتوں کو اس پر للکارتے، پکارتے رہے۔) عمران خان منہ موڑے بیٹھے ہیں۔
ایک بیٹی جو مغرب میں قیدی بنی، تا بہ مشرق ہے یہ حکم اٹھیں سبھی، پر ہے قاسم نہ اب معتصم ہی کوئی، بلکہ مجرم ہے، کوئی بڑھا ہے اگر! یہ اہتمام مشرف دور سے کیا گیا کہ قاسم ومعتصم سب عقوبت خانوں میں جھونک دو۔ ضمیر کی پکار پر اٹھنے کی اجازت 20 سالوں میں اس گلوب میں کسی خطے میں بھی نہ دی گئی۔ پاکستان کے طول وعرض سے لاپتگان کی المناک کہانی گواہ ہے۔ حتیٰ کہ خود امریکا پر بھی یہی حکم لاگو رہا۔ ضمیر کے قیدی کو ہر جگہ یا زندگی کی قید سے ہی رہا کردیا گیا، یا اسے اصلاً قید کردیا گیا۔
ایسوسیٹ پریس (امریکا) کی 26 نومبر کی رپورٹ ڈایٹرایٹ کے سابق فوجی کی موت کی خبر دے رہی ہے۔ میجر فش بیک ضمیر کے کچوکے کھاتا، 42 سال کی عمر میں ایک رفاعی دیکھ بھال (Foster Care) کے ادارے میں نفسیاتی مریض ہوکر مرگیا۔ اس نے افغانستان اور عراق میں اپنی (فوجی) تعیناتی کے دوران قیدیوں سے جو غیرانسانی سلوک دیکھا، اس پر وہ مسلسل اپنے افسران کو متوجہ کرتا رہا۔ ان کی جانب سے ایسی شکایات نظرانداز کیے جانے پر اس نے آرمڈ سروسز کمیٹی کے سربراہ سینیٹر وارنر اور رکن سینیٹر مکین کو خط لکھے۔ اس نے کہا کہ ’ قیدیوں کے لیے بہتر انسانی رویوں اور قانونی سلوک بارے اپنی قیادت سے واضح اور شفاف جواب سے محروم ہوں۔جو کچھ میں نے، اور میرے ماتحت فوجیوں نے عراق، افغانستان میں دیکھا، اس میں بدترین جسمانی تشدد، ٹوٹی ہڈیاں، قتل، شدید ترین جسمانی مشقت، برہنگی مسلط کرنا، نیند سے جبری محرومی، ذلت آمیز سلوک، موت کی دھمکیاں شامل ہیں۔‘ بالآخر اس کے مسلسل پیچھا کرنے پر 2005ء میں سینیٹ کو انسداد (بے رحمانہ) تشدد پر قانون سازی کرنی پڑی۔ تاہم بعدازاں اس ایکٹ میں ترمیمات کرکے چور دروازے بنا لیے گئے۔ یہی مغربی جمہوریت کی حیلہ بازی ہے۔ فش بیک اعلیٰ اقدار اور اصول پسندی کی خاطر اس نظام سے اعصاب شکن حصول انصاف کی جنگ لڑتے زندگی ہار بیٹھا۔ اس کی شکایت یہ تھی کہ وہ آئیڈیلز جن کی خاطر امریکی سپاہی اپنی جان داؤ پر لگا رہے ہیں، وہ روندے جا رہے ہیں۔ اس کی اصل بہادری اس کے مداحوں کے نزدیک انسانی ہمدردی اور دردمندی تھی! غیرانسانی سلوک پر سینہ زوری نے اسے نفسیاتی مریض بنا دیا۔ وہ نادان نہیں جانتا تھا کہ افغانستان پر ’آپریشن پائیدار آزادی‘ کے نام پرامریکا افغانوں کو ’آئیڈیلز‘‘ دینے گیا ہی کب تھا۔ وہ تو انہیں زندگی کی قید ہی سے رہائی دینے کا سامان ہر نوعیت کے بموں اور حربوں سے کرتا رہا۔ ایسے غیرمعمولی باضمیر انسانوں کو امریکا بعد ازمرگ تھپکی یوں دیتا ہے کہ ٹائم میگزین نے اسے 2006ء میںدنیا کے 100 مؤثر ترین افراد میں شامل
کرنے کا اعزاز دے دیا! اب دیکھ لیجیے یہاں سے جن افغانوں کو وہ احسان کرکے ہمراہ لے گئے تھے ان کا حشر جابجا کیا ہوا۔ 41 سالہ اجمل امانی افغانستان میں امریکی اسپیشل فورسز کا ترجمان رہا۔ اس خدمت کے دوران کئی مرتبہ وہاں طالبان کے ہاتھوں زخمی ہوا۔ نفسیاتی امراض کا شکار ہوگیا۔ امریکا میں زیر علاج تھا۔ اسی کیفیت میں (سینفراسسلو،25 نومبر) اپنے ہوٹل میں اس نے ایک چھوٹا، 6 انچ کا چاقو نکال لیا۔ امریکی پولیس نے سیدھی چھ گولیاں برسا کر وہیں مار پھینکا۔ اتنا رحم بھی نہ کھایا کہ زخمی کرکے قابو کرلیتے جان سے نہ مارتے! امریکا پر مر مٹنے کا عبرتناک انجام!
ادھر پچھلے دنوں عرب امارات سے زلزلے اور افراتفری، پریشانی، سراسیمگی کی خبریں آئیں۔ مگر یہ عجب کیا، کہ فلسطینیوں پر گزرتی قیامتوں سے منہ موڑے اماراتی صدارتی محل پر اسرائیلی پرچم آویزاں ہوا، سفارتی تجارتی تعلقات عروج پر ہیں۔ اسرائیلی ترانہ پڑھا گیا۔ زمین جھرجھری تو لے گی۔ عالمی علماء یونین نے عرب ممالک کے اسرائیل سے تعلقات پر شدید تنقید کرتے ہوئے انہیں شرعاً حرام قرار دیا ہے۔ اس طرز عمل کو فلسطینی قوم سے خیانت وغداری قرار دیا ہے۔ صہیونی قابض فوج نے 135 فلسطینی فائرنگ کرکے زخمی کیے ہیں۔ فلسطینیوں پر تشدد سے 97 دم گھٹ جانے کے واقعات مزید ریکارڈ ہوئے ہیں۔ عالمی سطح پر مسلم قیادت کے ایسے ہی اظہار غیرت کی مسلسل ضرورت ہے۔ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کا نوٹس لیا جانا، مودی پر دباؤ بھی لازم ہے۔ یہی عرب ممالک نہ صرف اسرائیل بلکہ بھارت سے بھی محبت کی پینگیں بڑھانے کے مجرم ہیں، کشمیر پر ایسے ہی مظالم کے باوجود۔ جان لیجیے کہ یہ کفر وایمان کی ازلی ابدی جنگ ہے۔ ہمیں رواداری اور تقارب پڑھانے والے سبھی بغل میں چھری مسلمانوں کے لیے رکھے رہتے ہیں۔ سید سلیمان ندویؒ نے مسجد شہید گنج کے واقعے پر تڑپ کر لکھا تھا: ’زمین پیاسی ہے۔ اس کو خون چاہیے لیکن کس کا؟ طرابلس کی زمین کس کے خون سے سیراب ہے؟ مسلمانوں کے! مسجد اقصیٰ کس کے خون سے رنگین ہے؟ مسلمانوں کے! ہندوستان کی زمین بھی پیاسی تھی، خون چاہتی تھی۔ کس کا؟ مسلمانوں کا۔ آخرکار یہ خون برسا اور ہندوستان کی خاک سیراب ہوئی!‘ اس دور میں خون مسلم کی سیرابی سے جابجا نخل آزادی پھوٹا۔ تاہم ہر جگہ ہی یہ جلد یا بدیر غلام صفت حکمرانوں کے ہاتھوں بن کھلے مرجھا گیا۔ سبھی استعماری ممالک حکمرانی اشرف غنی جیسے کٹھ پتلی بدعنوان عناصر کے حوالے کرکے گئے جو اسلام دشمنی میں آقاؤں سے بدتر تھے۔ حقیقی آزادی ایک دن بھی کسی مسلم خطے کا مقدر نہ ہوئی۔ 1996ء میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو عالمی قوتوں کے مقابل حریت کے توانا جذبوں کے امین کیونکر برداشت کیے جاتے۔ سو افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اب ایک مرتبہ پھر عشق بلاخیز کا قافلۂ سخت جان دنیا کو ششدر کیے (فبھت الذی کفر) مسند اقتدار پر چھا چکا ہے۔ توکل، ایمان، یقین محکم، عمل پیہم کی خونچکاں داستان تاریخ کی گھاٹیوں سے سرخرو ہوکر پورے افغانستان پر کلمے کی حکمرانی کا اعلان کر رہی ہے۔ ملا محمد حسن اخوند، وزیراعظم اسلامی امارت نے قوم سے پہلا خطاب کیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ افغانستان کے معاشی بحران اور بے روزگاری کی تمامتر ذمہ داری پچھلی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اس حکومت نے اپنے سبھی وعدے پورے کیے ہیں۔ ماضی میں لوگ بے در بے گھر ہوچکے تھے۔ آج ہر طرف تحفظ اور امن ہے۔ میں اپنی قوم اور مجاہدین سے کہتا ہوں کہ وہ شانہ بشانہ اسلامی نظام کے قیام اور استحکام کے لیے، ایک بہتر مستقبل کے لیے کام کریں۔ ہم اپنی ہمت سے بڑھ کر دن رات لوگوں کے مسائل حل کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ جو لوگوں کے گھروں میں (بلااجازت) گھس رہے ہیں وہ مجاہدین نہیں بلکہ ان کا حلیہ اختیار کرکے مسلح چور ڈاکو ہیں، انہوںنے یہ واضح کیا۔ انہوںنے اپنے گورنروں، کمانڈروں، افسروں کو تاکید کی کہ اپنے دروازے عوام (کے مسائل حل کرنے کو) کھلے رکھیں ورنہ اللہ اپنی رحمت کے دروازے آپ پر بند کر دے گا۔ انہوںنے تعلیم کا مرد وزن دونوں کے لیے لازم ہونا ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی امارت نے خواتین کو ان کے حقوق، وقار، پاکیزگی اور عزت عطا کی ہے۔ انہوںنے ہمسایہ ممالک کو یقین دہانی کروائی کہ انہیں افغانستان سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہوگا۔ ہم دوسرے ممالک میں دخل اندازی کی کوئی پالیسی نہیں رکھتے۔ انہوںنے عوام کو قحط سے نجات کے لیے دعاؤں کے لیے کہا، کہ یہ اللہ سے بغاوت کے نتیجے میں اللہ کی طرف سے آزمائش ہے۔
ہمارے ہاں ایک بھاری بھرکم انتہائی مہنگے جمہوری نظام جس میں پوری سرکار (حکومت، عدلیہ، بیورو کریسی سول، ملٹری) ملکی وسائل کا بیشتر حصہ نگل جاتی ہے، عوام کا حال حشر دیدنی ہے۔ پٹرول کا بحران حکومت اور ڈیلرز کے خفیہ مذاکرات کے بعد سبھی کو ستا کر ختم ہوا۔ یہاں سبھی کچھ خفیہ ہے۔ خفیہ خفیہ ہی ملک آئی ایم ایف کے ہاتھ گروی ہے۔ عوام کو ہمہ وقت اپنی ڈال رکھو کہ انہیں اوپر والوں کو دیکھنے کی بھی فرصت نہ ملے۔ گرمیوں میں بجلی کے ہاتھوں چوٹی تا ایڑی پسینہ بہے اور اب سردی میں گیس کو ترستے لرزتے کانپتے منقار زیر پر رہیں! صبر سے رہیں گھبرانا نہیں ہے۔ صبر کا بدلہ جنت ہے جو بنی ہی عوام کے لیے ہے اور حکمران عوام کو وہاں پہنچانے کے مشتاق ہیں۔ اس سے بڑھ کر بہی خواہی کیا ہوگی!
کوئی سمجھے نہ سمجھے ہم تو سب کچھ کہہ گزرتے ہیں