کہتے ہیں کسی بھی اسمبلی کا سپیکر ، ایوان اور ممبران کا کسٹوڈین ہوتا ہے دوسرے معنوں میں وہ اراکین اسمبلی اور ہائوس کی عزت کا پاسبان ہوتا ہے۔ لیکن سندھ اسمبلی کے منتخب سپیکر آغا سراج کی کرپشن میں گرفتاری ہماری ملکی سیاست کا انوکھا واقعہ ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جس طریقے سے سپیکر نے گرفتاری دی اس نے سندھ اسمبلی کے چہرے پر کالک مل دی۔ اسی سندھ اسمبلی کی پہلی خاتون اور منتخب ڈپٹی سپیکر کماری جیٹھی ہیملانی بھی تھیں جو اسمبلی اور اپنے عہدے کی عزت کے لیے آغا سراج کی طرح بھاگی بھاگی نہیں پھرتی تھیں بلکہ انگریز سامراج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جیل گئیں۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ بلاول بھٹو بھی آغا سراج کی حمایت میں جج بن کر آ گئے۔ بلاول بھٹو ایسا کرتے وقت سندھ کی عظیم حریت پسند بیٹی اور 1937 میں سندھ اسمبلی کی منتخب ڈپٹی سپیکر کماری جیٹھی ہیملانی کو بھی بھول گئے۔ بلاول بھٹو کو تو شاید جیٹھی ھیمیلانی کا علم بھی نہ ہو کون تھی اس کا ذکر کالم کے آخر میں کروں گا۔
سپیکر کے عہدے پر بھی عموماً کسی عزت والے ایسے شخص کا تقرر کیا جاتا ہے جو قدرے غیر متنازع ہو اور جس کا ماضی قدرے بے داغ ہو۔ میں نے لفظ ’’قدرے‘‘ اس لیے استعمال کیا کہ وطن عزیز میں سیاست یا سیاستدان کا مطلب اقربا پروری اور اخلاقی و مالی کرپشن سے لتھڑا ہونا سمجھا جاتا ہے اور اس الزام سے گنے چنے افراد ہی بچتے ہیں۔ لیکن سپیکر ہو یا وزرا ء فی زمانہ ایسے لوگوں کو ان مناصب پر فائز کیا جاتا ہے تا کہ وہ احتساب کے اداروں سے بچ سکیں۔ اب ہمارے سیاسی معاشرے میں چند دانے نکال کر عمومی طور پر ایمانداری اور سیاست ایک دوسرے کی ضد سمجھی جاتی ہیں۔ سندھ دھرتی سے مجھے بہت پیار ہے اوربھٹو خاندان میرا سیاسی آئیڈل ہے اور رہے گا۔ کسی بھی سیاسی جماعت کا حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے ورکروں کو وقت آنے پر اہم عہدے دے لیکن ایسا کرتے وقت وہ کم داغدار چہروں کا انتخاب تو کر سکتی ہیں تا کہ اسمبلیوں اور جمہوریت کی شفافیت پر سوالات نہ اٹھ سکیں۔ اور خاص طور پر سپیکر اور چئیر مین سینیٹ کا انتخاب ایسی شخصیت کو کرنا چاہیے جس کا چہرہ قدرے صاف ہو۔ پیپلز پارٹی کے سپییکر سندھ اسمبلی کا جب چنائو ہوا توکچھ پرانے صحافی دوستوں اور پیپلز پاٹی کے ہی کچھ سینئر سیاستدانوں نے بتایا کہ آغا سراج کا چنائو ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ انہیں بطور سپیکر سندھ اسمبلی نیب اور احتساب کے دیگر اداروں سے بچایا جا سکے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ سپیکر اسمبلی بہر حال ایک معتبر عہدہ ہے۔ نیب سندھ کے ایک اعلی عہدیدار نے بھی بتایا کہ وہ آغا سراج کی تیزی سے بڑھنے والے اثاثوں کی تحقیق کر رہے تھے جو کہ ان کے بظاہر زرایع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کہتے ہیں جس تیزی سے آغا سراج کی دولت بڑھی ہے اس پر پارٹی کے اندر بھی سوالات اٹھائے گئے لیکن ان کی نہ سنی گئی۔
سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج نے جس بھونڈے طریقے سے سپریم کورٹ کے حکم پر نیب کے سامنے سرنڈر کیا اس نے نہ صرف سیاستدانوں کے منہ پر کالک مل دی بلکہ سندھ اسمبلی کا چہرہ بھی داغدار کر دیا۔ وہ اپنے قائد آصف علی زرداری ہی سے سبق سیکھ لیتے کہ جب نیب عدالت کے حکم پر ان کی گرفتاری کا حکم آیا تو انہوں نے اپنی گرفتاری کے لیے آئی نیب ٹیم کی چائے سے خاطر تواضع کی اورخود چل کر نیب کی گاڑی میں بیٹھے۔ وہ آغاسراج کی طرح مفرور نہیں ہوے اور نہ ہی نیب ٹیم کو گرفتاری کے لیے ان کے گھر کا محاصرہ کرنا پڑا۔ بعد میں انہیں عدالت نے ہی ضمانت دی لیکن انہوں نے عزت کے ساتھ سرنڈر کیا اور خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ آغا سراج یہ بھی بھول گئے کہ ان کا تعلق اس پارٹی سے ہے جس کے شہید لیڈر ذولفقار علی بھٹو نے ڈکٹیٹر ضیا الحق کے سامنے سر جھکانے کی بجاے پھانسی کا پھندا گلے لگا لیا۔ آغا سراج الحق کے گرفتاری سے بچنے کے طریقے سے نیب کے اس دعوی میں وزن نظر آتا ہے کہ وہ ’’کسی ‘‘ کے فرنٹ مین ہیں۔ خیر اس کا فیصلہ تو عدالت کرے گی۔
اب آتے ہیں کماری جیٹھی تلسی داس سپا ہیملانی حریت پسند لیڈر اور سندھ اسمبلی کی سابقہ ڈپٹی سپیکر کی طرف۔
سپاہیملانی سندھ میں 10 فروری 1906ء کو پیدا ہوئیں۔ اس نے ابتدائی تعلیم کندنمل گرلز اسکول حیدرآباد اور انڈین گرلز اسکول کراچی سے حاصل کی۔ سپاہیملانی دیا آشرم کی پرنسپل بھی رہیں۔
سن 1930ء کو نوکری چھوڑ کر ہندوستاں میں برطانوی حکومت کے خلاف جاری آزادی کی تحریک کا حصہ بنیں۔ ہندوستان چھوڑ دو اور نمک مارچ کی تحاریک میں حصہ لینے کہ باعث 1932ء سے 1943ء تک کئی مرتبا جیل گئیں۔ سپاہیملانی دو دفعہ عام نشتوں پر سندھ اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں اور 1937ء میں سندھ اسمبلی کی پہلی عورت ڈپٹی سپیکر مقرر ہوئیں۔
انگریز دور میں 21 جنوری 1943ء کے دن سندھ کے امر شہید ہیمو کالانی کو جب سکھر جیل میں پھانسی دی گئی تب "جیٹھی کماری سپاہیملانی" بھی برطانوی سامراج کے خلاف "Quit India Movement" میں گرفتار ہو کر جیل میں قید تھی. ہیمو کالانی کی شہادت کی خبر سن کر جیٹھی نے اپنے ساڑھی کا پلْو پھاڑ کر اس کا جھنڈا بنایا اور انقلاب زندہ آباد کے نعرے لگا کر قیدیوں میں قومی جذبات ابھارتی رہی۔
بعد میں جیٹھی کماری کو کراچی جیل بھیج دیا گیا جہاں اس کو موقع دیا گیا کہ "تمہاری ماں کومہ میں ہے اور تم بھی بیمار ہو، اب اگر تم صرف معافی نامہ لکھ دو اور انگریز سرکار سے آزادی کی درخواست کرو تو تمہیں آزاد کیا جائیگا." اس پر جیٹھی نے اپنی جوتی اتار کر سرکاری نمائندے کو کہا "جیٹھی تو کیا، جیٹھی کی جوتی بھی انگریز سرکار سے معافی نہیں مانگے گی"۔
سیاسی اور اخلاقی انحطاط کا یہ عالم ہے ایک طرف عظیم جیٹھی کماری تھیں اور دوسری طرف کرپشن کے الزامات میں لتھڑا ہوا آغا سراج۔ کم از کم پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کو کوئی شرم کوئی حیا ہونی چاہیے کہ اتنے اہم عہدوں پر نامزدگی کرتے وقت ہی سندھ اور اپنی پارٹی کے شاندار ماضی اور تاریخ کو ہی سامنے رکھ لیتی۔ لیکن آصف علی زرداری جیسا شخص جو اس پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیر اعظم بنا سکتا ہے جس کا نام شہید بی بی بے نظیر بھٹو کی طرف سے اپنی زندگی میں ہی اپنے مبینہ قاتلوں میں لکھوایا ہو تو اس پر مزید بحث فضول ہے۔ اب پتہ چلا ہے کہ آغا سراج کو پروڈکشن آرڈر پر سندھ اسمبلی کے اجلاس میں بلانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ حیف صد حیف۔لگتا ہے منتخب عہدے اب کرپشن کے خلاف ڈھال کے طور پر ہی استعمال ہوا کریں گے۔
قارئین کالم کے بارے میں اپنی رائے اس وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔